آخری سانسیں لیتا ہوا سامراج ، ہارون بلوچ

248

آخری سانسیں لیتا ہوا سامراج

تحریر: ہارون بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

جہاں ایک طرف بہادر اور دلیر بلوچ شیرذال، بلوچ قوم کی بقاء کے واسطے اور بلوچستان پہ ڈھائے گئے مظالم کے خلاف بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں کی مانند ڈٹ کر ظالم اور خونخوار سامراج سے بلوچوں پر جاری ظلم و جور کا حساب لینے کے لئے کھڑے سینہِ سپر نظر آتے ہیں تو ترسی ہوئی نااُمید نگاہوں کو ایک امید کی کرن نظر آنے لگتی ہے اور آنکھیں سکون محسوس کرنے لگتی ہیں۔

دوسری جانب ضمیر فروش سرمایہ دار طبقہ جن میں کیا نواب کیا سردار کیا میر کیا ٹکّر کیا بیوپار نہ جانے کون کون سے نمونے ہیں کہ جو ایک بار پھر بلوچ قوم کی خون چُوسنے اور بلوچی وقار کا سودا کرنے اور اپنی جائدادیں بڑھانے اور اپنے پیٹ مزید پُھلانے کے لئے دوکانداری کرتے نظر آرہے ہیں۔

اچھی بات یہ نظر آرہی ہے کہ اب کے بار اِن نمونوں کے اردگرد یا تو محض ان کے خاندان کے لوگ پائے جاتے ہیں یا پھر کچھ اوباش اور دماغ سے فارغ کچھ بدکار اور بے روزگار چہرے ہی ان کے ساتھ ہوتے ہیں جس سے یہ سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی غلط فہمی میں دن کو جوں توں شام کرتے ہیں۔

یوں تو کب سے ہی ان کے اصلی اور بدبودار چہرے قوم کے سامنے عیاں ہو چکے ہیں اور اب وہ دن دور نہیں کہ ان کو بلوچ قوم کے قہر سے بچنے کےلئے جگہ نہیں ملنے والی۔

یہ سب تب ہی ممکن ہوسکتا ہے جب قوم اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرنے کا فیصلہ کرے گی۔
بقولِ شاعر۔۔۔
لیکن اب ظلم کی میعاد کے دن تھوڑے ہیں
اِک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں
جس اسلام آباد نے ہماری ماؤں بہنوں اور بچوں کا شاندار استقبال کرتے ہوئے رات کے دو بجے شدید سرد موسم میں ان کے ناتواں جسموں پر برف جتنی سرد پانی اور لاٹھیوں کی بارش کی تھی، اسی اسلام آباد کے پروپیگنڈے پر کام کرنے اور اس کا قبضہ مزید مضبوط کرنے کے لئے” تاکہ آگے جا کے وہ بلوچ قوم کی مزید تذلیل کرسکیں، بلوچستان کو مزید لوٹ سکے، اور زیادہ بدمعاش بن سکیں۔

یہ ایک دفعہ پھر سے آپ کو گلیوں، بازاروں سڑکوں، خالی “سیاسی” دفتروں اور نہ جانے کہاں کہاں نظر آئیں گے۔ جیسے براہوئی میں ایک مَتَل ہے “ہراڑے دَسپہ تا ہموڑے رُدِرہ”
ایک اور بھی ہے کہ “شامات آنبار مون ٹی لَگّرہ”

اب ہمیں پہچاننا ہوگا ان کو، یہ جتنا مرضی دعوٰی کریں کہ ہم قوم کے ہمدرد اور غمخوار ہیں، سچے اور پکّے اور حقیقی نمائندے ہیں، لیکن نہیں، یہ دشمن کا ساتھ نبھانے آئے ہیں، یہ چار پیسوں کے بدلے اپنا ضمیر اپنا غیرت اپنے ایمان کا سودا تو کریں گے ہی ساتھ میں یہ بلوچستان کے ساحل و وسائل اور بلوچ قوم کی حرمت و عظمت اور شان و شوکت اور خودداری اور عزت و آبرو اور ننگ و ناموس تک کو بیچ ڈالنے کے ارادے میں ہیں۔

بخدا ان کو موقع نہیں ملنا چاہئیے اب وقت آچکا ہے کہ ہم ایک قوم کی حیثیت سے اپنے فرائض اور ذمے داریوں کا تعین کرکے قومی فرائض نبھاتے ہوئے اپنے صف سیدھے کریں اور اس بدکار اور ظالم دشمن کے ظلم و زوراکی اور جبر و استحصال اور لُٹ و پُل اور قتل و غارت گری اور قبضے کا خاتمہ کریں۔ اور ان کے ساتھیوں کا وہ حال کریں کہ یہ نشانِ عبرت بن کے رہ جائیں۔ خدا کرے کہ ہمارے آنے والے دن آذادی اور خوشحالی کے دن ہوں اور ہم مزید غلام بچے پیدا کرکے ایک گناہِ عظیم کا مرتکب نہ ہوں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔