بلوچ نسل کُشی کے خلاف تحریک پر کریک ڈاؤن ریاستی بوکھلاہٹ کا عکس ہے – بی ایس او

203

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ گزشتہ پچھتر سالہ محکومی کے خلاف جاری بلوچ قومی تحریک میں آئے روز شدت آ رہی ہے۔ ریاستی جبر و بربریت کے باوجود بلوچ قوم نے اپنی شناخت، سرزمین و ثقافت اور تہذیب کے بچاؤ کےلیے جدوجہد جاری رکھا ہے۔

مرکزی ترجمان نے کہا کہ ریاستی ڈیتھ اسکواڈوں، مسلح جتھوں اور آفیشل اداروں کی جانب سے بارہا بلوچ قومی تحریک کو کچلنے کی کوشش کی گئی مگر بلوچ عوام نے ہر بار اپنے مزاحمت قوت و طاقت سے انہیں پیچھے دھکیلا اور ان کی تمام تر سفاکیت و ظلم و جبر کو ناکام بنایا۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ ریاست بلوچ کے عوامی سیاسی مزاحمت سے بے پناہ خوفزدہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ شہید بالاچ مولابخش سمیت دیگر سیکڑوں لاپتہ افراد کو سی ٹی ڈی کی جانب سے فیک انکاٶنٹرز میں مارنے، ماورائے آئین اغوا کاری، زبان و اظہارِ رائے کی آزادی پر بندش اور مجموعی طور پر بلوچ نسل کشی کے خلاف مکران سے ابھرنے والی عام عوامی تحریک جھالاوان و سراوان سے ہوتا ہوا بلوچ سرزمین ڈیرہ جات تک پہنچ چکا ہے، تمام تر ہراسانی، جبر و تشدد، بوگس ایف آئی آر اور رکاوٹوں و گرفتاریوں کے باوجود اس عام عوامی تحریک کا کامیابی سے ڈیرہ جات تک پہنچنا اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچ عوام سیاسی و مزاحمتی شعور سے مسلح ہے اور عملی مزاحمت کے میدان میں بھی آئے روز جہد کر رہا ہے۔ یہی عام عوامی سیاسی و مزاحمتی تحاریک ہی بلوچ کی نجات کا مکمل و واحد زریعہ ہیں۔ ان عام عوامی تحاریک کی کامیابی اور تسلسل بلوچ کو ایک نیا سماج تشکیل دینے اور مکمل انقلاب برپا کرنے میں معاوِن و مددگار ثابت ہونگے۔

بی ایس او کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ ریاست سمیت تمام تر بلوچ دشمن قوتیں ان عام عوامی تحاریک سے خوفزدہ ہوتے ہیں اسی لیے ہم نے برمش تحریک و حق دو تحریک، بارکھان تحریک سمیت اس تحریک میں بھی دیکھا کہ وہ عناصر اس عوامی مزاحمت کو روکنے، منتشر کرنے اور عوام کو خوفزدہ کرنے کےلیے مختلف حربے استعمال کر رہے ہیں جن میں بوگس ایف آئی آر، گرفتاریاں، لاٹھی چارج و تشدد، ہراسانی اور ساتھیوں کی جبری اغواء کاری کے گھناؤنے حربے شامل ہیں۔ لیکن ایک بات ان نوآبادیاتی قوتوں پر واضح ہو کہ ظلم جبر اور طاقت کے استعمال سے نہ پہلے کبھی کسی ردِ نوآبادیاتی تحریک کو کچلا جا سکا ہے نہ ہی آج کے عہد میں اس تحریک کو کچلنا، دبانا یا ختم کرنا اس ریاست سمیت کسی دوسرے طاقت کے لیے ممکن ہے۔

مرکزی ترجمان نے کہا کہ یہ دہائی بلوچ سرزمین پر عام عوامی سیاسی و مزاحمتی تحاریک کی دہائی ہے اس تحریک سے بھی بہت بڑی تحاریک آنے والے ہیں وہ ابھر کر سامنے آئیں گی اور عام عوامی شعور و مزاحمتی طاقت کو بڑھوتری و توانائی بخشنے کا سبب بنیں گی۔ ان تحاریک کو سنبھالنے اور ضائع ہونے سے بچانے کےلیے مستقل مزاج، وسیع النظر، بالیدہ سوچ و فکر سے مسلح انقلابی کیڈرز کی ضرورت پڑے گی۔ اسی لیے بی ایس او اپنے انقلابی کیڈر سازی کے عمل میں شدت و دیدہ دلیری کے ساتھ ملوث ہے۔

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے ہمیشہ عوامی مزاحمتی تحریک کو خوش آئندہ کہا ہے اور بھر پور توانائی بخشی ہے، بلوچ نسل کشی کے خلاف جاری اس عام عوامی تحریک کی بھی بی ایس او مکمل حمایت کرتی ہے اور اس کے خلاف ہونے والی تمام تر جبر و بربریت کی مذمت کرتی ہے۔

مرکزی ترجمان نے آخر میں کہا کہ عام عوامی مزاحمتی تحاریک سے خوفزدہ مسلط حکام عوام کو ان تحاریک سے مایوس کرنے اور انہیں منتشر کرنے کےلیے ہر وقت جبر و طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں تاکہ اس طاقتور مزاحمتی راہ کو عام بلوچ عوام کےلیے بند کیا جاٸے مگر بلوچ عوام کو اس بات کا علم ہے کہ سب سے زیادہ طاقتور مزاحمت عام عوامی سیاسی مزاحمتی تحاریک سے ہی ممکن ہو سکتی ہے اور اب بلوچ عوام اپنے اس مزاحمتی عمل کو کسی بھی صورت ترک نہیں کریں گے بلکہ اس میں ہر نٸے دن کے ساتھ شعوری و مزاحمتی شدت و جدت لائیں گے۔