یہ ہماری نادانی ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچ کی تحریک ہر بستی تک پہنچ چکی ہے – ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ

451

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے جامعہ بلوچستان سے جبری لاپتہ سہیل اور فصیح کی عدم بازیابی کیخلاف احتجاج میں گذشتہ روز کوئٹہ میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم یہاں بیٹھے ہیں اور بلوچ و بلوچ شناخت کی بات کرتے ہیں، یہ جہد ان نوجوانوں کی  دین ہے جو اس کو یہاں ہم تک پہنچا چکے ہیں۔ ہم آج جس بلوچستان یونیورسٹی سے آئے ہیں وہ شہید فدا اور لاپتہ ذاکر مجید بلوچ کا مقام رہا ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی شہید سنگت ثناء بلوچ کا مقام رہا ہے جس کو پاکستانی فوجی اہلکار تیس گولیاں مار کر قتل کرتے ہیں کیونکہ وہ اس کی شناخت ختم کرنا چاہتے تھے لیکن سنگت ثناء کے بعد بھی اس کا کاران جاری ہے۔ لاپتہ زاہد بلوچ کے بعد بھی اس کا کاروان رواں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ہم کیوں لاپتہ کیے جارہے ہیں، یہ جبری گمشدگیاں ہماری غلامی کے باعث ہورہے ہیں۔ شہید فدا کی طرح بہت سے بلوچ ہوئے ہیں جنہوں نے کہاں کہ آئیں علم حاصل کرکے بلوچ معاشرے کو ترقی کی جانب لیجاتے ہیں لیکن آج ان سب کی پہچان ختم ہوچکی ہے لیکن وہ فدا بچا ہے جس کو ہم پہنچاتے ہیں۔

ڈاکٹر ماہ رنگ کا کہنا تھا کہ جب ہم بلوچ جہد اور تحریک کی بات کرتے ہیں، شاید یہ ہماری نادانی ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچ کی تحریک ہر بستی تک پہنچ چکی ہے۔ ہم یہاں بیٹھ کر سیاست کریں لیکن اس سیاست کو بلوچ بستیوں تک نہیں پہنچا سکتے ہیں۔ سہیل وہ نوجوان رہا ہے کہ اس نے سامنے آکر نوشکی میں بلوچ نوجوانوں کو اکھٹا کرنے کا بیڑا اٹھایا، اس نے کہا کہ میں نوشکی میں نوجوانوں کو ایک پڑھا لکھا ماحول فراہم کرونگا۔ سہیل کا یہی ایک جرم ہے۔

انہوں نےکہا کہ سہیل میٹرک کا طالب علم تھا لیکن اس کا نظریہ یہاں بڑے بڑے پوسٹوں پر براجمان لوگوں سے زیادہ مضبوط رہا ہے۔ وہ جانتا تھا کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے، وہ جانتا تھا کہ بلوچ بننے کی ذمہ داریاں کیا ہے۔ آنے والے دنوں میں ہمیں شاید اس کی قیمت چکانا ہوگا لیکن ہم تیار ہے یا نہیں یہ ہمارے ایک سوال ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم کبھی بھی مایوس نہیں ہوئے ہیں اور مستقبل میں بھی نہیں ہونگے۔ جب بھی مجھے مایوسی گھیرتی ہے تو میں سنگت ثناء کے لاش کو دیکھتی ہوں کیونکہ قبضہ گیر کے ناکامی کو میں سنگت ثناء کے جسم پر لگنے والی گولیوں کے نشانات میں دیکھتی ہے، وہ زخموں کے نشان دیکھتی ہوں جس میں بلوچ کے کامیابی نظر آتی ہے۔ ایک وقت آئے گا کہ بلوچ کامیاب ہوگا اور اس کامیابی کو ہم بلوچ نوجوانوں کو آگے لیجانا ہوگا۔

ماہ رنگ بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ اس راہ میں مشکلات زیادہ ہے، یہ لمبی مسافت ہے، ہمیں جدا کرنے والی بہت سی چیزیں ہیں لیکن متحد کرنے والی چیز ایک ہے اور وہ سرزمین ہے۔ وہی سرزمین جس کے باعث ہم آج یہاں ایک ساتھ بیٹھے ہیں، وہی سرزمین کہ سہیل نوشکی سے تعلق رکھتا ہے، کمبر مکران سے تعلق رکھتا ہے لیکن ان تمام نوجوانوں کیلئے بلوچستان کے ہر علاقے میں احتجاج ہورہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس آواز کو دھیمی نہ کریں، ہم دیکھتے ہیں کہ ہم تھک جاتے ہیں، مایوس ہوتے ہیں، ہمارے نعرے کم ہونگے لیکن یہ ریاست نہیں تھکے گی، یہ ہمیں لاپتہ کرنے سے نہیں تھک رہی، ہر روز کسی کو لاپتہ کررہی ہے لیکن ہم اسی خوش فہمی میں ہے کہ کل حالات ٹھیک ہونگے لیکن یہ یہ حالات اس وقت تک ٹھیک نہیں ہونگے جب تک تم جنگ کو نہیں اپناؤ گے۔ اس جنگ کو اپناؤ گے بچ جاؤ گے نہیں تو دیگر اقوام کی طرح تم بھی بھگا دیئے جاؤ گے، مہاجر کھیلائے جاؤ گے۔