کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ آج 5238 ویں روز جاری رہا۔ اس موقع پر بی ایس او کے زونل صدر کبیر بلوچ اور کابینہ کے دیگر کارکنوں نے آکر اظہار یکجہتی کی ۔
تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے کہا کہ جبری گمشدگی نہ صرف ایک جرم ہے بلکہ یہ انسانیت کے خلاف ایک منافی عمل ہے ایسا کوئی عمل ناقابل قبول ہے چاہے وہ دہشتگردی کو کاونٹر کرنے کے لئے کی جائے یا کسی جائز مطالبے کے لئے اٹھائی جانے والی آواز کو دبانے کے لئے ہو۔
انہوں نے کہاکہ دوسری جانب پاکستان دنیا کو بلیک میل کر کے سفاکیت سے بلوچ نسل کشی کے عمل میں مصروف عمل ہے بلوچستان میں پاکستانی خفیہ ادارے آئے روز بلوچ فرزندوں کی جبری گمشدگی اور دوران حراست انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد شہید کرنے مسخ شدہ لاشیں ویرانوں میں پھینکنے میں مصروف ہیں 2001 سے لیکر اب تک ہزاروں بلوچ فرزندوں کو پاکستانی ادارے بھرے بازار گھروں مسافر گاڑیوں اور تعلیمی اداروں سے جبری طور لاپتہ کر چکے جن میں ایک بڑی تعداد خواتیں بچوں اور پیران سال بزرگوں کی بھی ہے ہزاروں کی تعداد میں جبری لاپتہ افراد کی تشدد لاشیں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے برآمد ہوئی ہیں جنکا اعتراف ایمنسٹی انٹرنیشنل، امریکی محکمہ خارجہ، اقوام متحدہ کا کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان کی اپنی سپریم کورٹ حتی کہ پاکستانی پارلیمنٹ بھی کر چکی ہے اور جسکی ویڈیو شواہد بھی دنیا کے سامنے آ چکے ہیں۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ان حالات میں اقوام متحدہ کا کمیشن برائے انسانی حقوق کا ادارہ بھی پاکستان کے خلاف کوئی عملی اقدام اٹھانے سے قاصر ہوکر تشویش اور افسوس کے اظہار تک محدود ہے جبری لاپتہ بلوچ فرزندوں کے لواحقین کی پندرہ سالوں سے جاری بھوک ہڑتالی کیمپ کو بھی درخود اعتنا نہیں سمجھا جا رہا جو خود اقوام متحدہ کے چارٹر کے منافی ہے اب اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کے ورکنگ کا ایک وفد 10 دسمبر سے پاکستان کے 10 روزہ دورے پر آ رہا ہے جہاں سے وہ بلوچستان کا دورہ کرکے وہاں کے حالات کا جائزہ بھی لیگا مگر بعض ذرائع کے مطابق اس وفد کی رہنمائی کے لئے پاکستان نے اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے اپنے من پسند افراد پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی ہے تاکہ وہ وفد کو اصل حقیقت سے دور رکھے۔