کامریڈ ماس سے ملاقات ۔ زباد بلوچ

482

کامریڈ ماس سے ملاقات

تحریر: زباد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آزادی ایک خوبصورت احساس ہے جس سے محبت تو سب ہی کرتے ہیں لیکن بہت کم ہی انسان ایسے ہوتے ہیں، جو اس کو پانے کے لیے اپنی زندگی ہتھیلی پہ رکھ کر اپنا سب کچھ قربان کرنے کیلئے اس پُر کٹھن راستے کا انتخاب اس امید پہ کرتے ہیں کہ غلامانہ زندگی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کرکے، اپنے آپ اور اپنی قوم کو اس حسین احساس سے آشنا کر سکیں گے، اس مشکل و پُر کٹھن سفر میں احساس غلامی رکھنے والا کامریڈ مقصود عرف کامریڈ مہروان (ماس) اپنی دھرتی کی مٹی سے بندھا ہوا تھا اور اس جہدِ مسلسل سے وہ اپنی آخری سانس تک جڑا رہا۔

شاید سنگت اس تین دن کی ملاقات کو بیان کرنے میں مَیں تمہارے کردار کے ساتھ ناانصافی کرو جو تمہارے عظیم جہدِ مسلسل کو دنیا کے سامنے آشکار کر سکے اگر کوئی کمی رہ گئی ہو تو نا چیز کو بخش دینا۔

مادر وطن کی آزادی کے لیے ہزاروں بلوچ جانوں کا نذرانہ دے چکے ہیں اور ہزاروں لعل دشمن کے خلاف میدانِ جنگ میں مصروف ہیں، ہزاروں مرد، عورتیں، جوان، بزرگ اور بچے ریاستی زندانوں میں زندگی اور موت کے قریب پہنچ چکے ہیں لیکن اس کے باوجود چند ایسے کردار ہوتے ہیں جو دل و دماغ میں اثر چھوڑ جاتے ہیں انہی میں سے ایک کردار کامریڈ مقصود عرف کامریڈ مہروان بھی ہے۔

یہ انسانی فطرت کا حصہ ہے کہ زندگی میں ملنے والے چند ایسے کردار بھی ہوتے ہیں جنہیں لمحہ بھر کیلئے بھلایا نہیں جاسکتا۔ بقولِ رالف والڈو ایمرسن “وہاں نہ جائیں جہاں راستہ لے جاسکتا ہے اس کے بجائے وہاں جائیں جہاں کوئی راستہ نہ ہو اور ایک پگڈنڈی چھوڑ دو۔”

۸ ستمبر ۲۰۲۳ کی بات ہے صبح سویرے چائے پی رہے تھے کہ کیمپ کمانڈر نے سنگت دوستین، سنگت زیشان اورسنگت محراب کو کہا کہ تیاری کرو آپ لوگوں کو سفر پہ جانا ہے تو دوست اپنی تیاری میں لگ گئے جبکہ اپنے کیمپ کے کاموں میں مگن تھا کہ کچھ دیر بعد کمانڈر نے کہا آپ بھی ان کے ساتھ چلو، راستے میں گھر والوں سے فون پہ بات کر لینا کیونکہ وہاں نیٹ کی سہولت میسر ہے، ان دنوں مجھے ایک مہینہ ۶ دن ہوئے تھے، شاید کمانڈر نے سوچا کہ نیا نیا آیا ہے اپنے گھر والوں سے بات کرے گا تو بہتر ہوگا۔

خیر ہم ۴ دوست تیاری میں لگ گئے، اپنا ضروری سامان گدھوں پہ لاد دیا اور دوستوں سے ان الفاظ کیساتھ کہ “رخصت اف اوارن سنگت” کہہ کر الوداع کیا۔

ہم سفر کیلئے کیمپ سے راوانہ ہوئے! سنگت دوستین ہم میں سے پہلے کامریڈ ماس سے مل چکا تھا جبکہ باقی دوستوں کی پہلی ملاقات ہے کہ کامریڈ سے مل رہے تھے۔ راستے میں سنگت دوستین اکثر کامریڈ کے بارے میں باتیں کرتا رہا کہ اس جیسا مہروان سنگت سے میں نہیں مل چکا ہوں؛ جس طرح ایک ماں ہوتی ہے وہ واقعی ایک ماں کی طرح ہے۔ بس دل میں ایک تجسس سی ہوگئی تھی کہ جلد کامریڈ سے ملاقات ہو۔

خیر ہم دو دن بعد صبح ۹ بجے وہاں پہنچ گئے جہاں ملنا تھا۔ دوستوں سے سلام دعا اور بلوچی حال حوال ہو رہا تھا تو مجھے اس وقت پتا نہیں تھا کہ کامریڈ کونسا ہے لیکن ایک شخص چہرے پہ مسکراہٹ لئے اس طرح محو گفتگو تھا تو مجھے اندازہ ہوا کہ یہی کامریڈ ہے تو اچانک میرے ذہن میں اسکاٹ لینڈ کے معروف ناول نگار ولیم بلیک کے الفاظ یاد آگئے: “جب آدمی اور پہاڑ ملتے ہیں تو عظیم چیزیں ہو تھی ہیں، یہ گلیوں میں ہلہ گلہ کرنے سے نہیں ہوتا۔”

آج واقعی عظیم چیزیں ہوگئی۔ کامریڈ کا سفر جہدِ آجوئی میں کافی طویل تھا اُس نے سیاسی جدوجہد کا آغاز بلوچ طلباء تنظیم بی ایس او کے پلیٹ فارم سے شروع کیا تھا۔ اکثر ہماری ڈسکشن، بحث یہی رہی، اپنے اسٹوڈنٹ لائف کے قصے کرتا، کامریڈ سے بہت سے موضوعات پر بات چیت ہوتی تھی جس میں کامریڈ ایسے دلائل سامنے پیش کرتا تھا کہ آگے سوال کرنے کی ہمت ہی ختم ہو جاتی کیونکہ جواب اتنا اطمینان بخش ہوتا جو دماغ میں آنے والے سوالوں کا بھی جواب ہوتا میرے خیال سے کامریڈ سیاسی و علمی دانشمندی کا ایک جیتا جاگتا مثال تھا۔

جس طرح کامریڈ نے ہمیں مہر دیا شاید ایک ماں ہی دے سکتا ہے لیکن کامریڈ کے دیئے ہوئے مہر ان پہاڑوں کے دامن میں کسی ماں کے مہر سے کم نہیں تھے انہی دنوں میں ایک دوست بیمار ہوا، جس طرح کامریڈ نے ان کی تیمارداری کی شاید ایک ماں کے سوا کوئی تھا تو کامریڈ تھا تب مجھے سمجھ آیا کہ کہ کامریڈ کو ماس (ماں) کا لقب کس وجہ سے تحریک کے دوستوں نے دی تھی۔

عاشقِ وطن کامریڈ جس کی سوچ میں وطن، جسکا جینا مرنا وطن، جس کے خواب و خیال میں وطن اور جسکی پوری کائنات میں وطن؛

کتنا وقت ہوا آپ کو تحریک میں ۔۔۔!

بس کچھ دن ہو رہے ہیں ۔۔۔!

سنگت یہاں آکر کیسا محسوس ہو رہا ہے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

٬”سنگت ان دلکش بلند و بالا پہاڑوں کے دامن میں آکر آزادی کی سانسیں لے رہا ہوں، یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے اپنی غلامی کے زنگ آلود زنجیروں کو توڑنے کی کوشش میں مصروفِ عمل ہوں۔۔۔”

“بلکل سنگت غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کے لیے ہم سب کو مل کر اس قبضہ گیریت کے خلاف مزاحمت کرنا ہے اور اپنے قوم و سر زمین کو اس قابض ریاست سے آزاد کرانا ہے۔” کامریڈ نے سنجیدگی سے جواب دیا ۔

ہمیں واپس اپنے کیمپ کی طرف جانا تھا یوں بس کامریڈ سے تین دن کی ملاقات قسمت میں لکھی تھی، نا چاہتے ہوئے بھی کامریڈ سے جدا ہوئے۔۔۔۔۔

میں گلے نہیں ملونگا۔۔!، ہم پھر ضرور ملیں گے جلد ملاقات ہوگی اگر شہید نہیں ہوا تو۔۔۔۔!

رخصت اف، بلے وتی کھیال ءَ بداری قُربانوں۔۔۔!

یوں ہم دوست کامریڈ سے الوداع ہوئے، ہم اپنے کیمپ کی طرف روانہ ہوئے کچھ دن بعد ہم اپنے کیمپ پہنچ گئے۔

آہ وہ ایک دن۔۔۔ وہ اژدھا کا مقابلہ کرتے ہوئے، اپنے وطن کے سرخ پوشوں کا ہمنواہ بن گیا۔

کبھی کبھار سوچتا ہوں کاش کہ میں نے 6 اکتوبر 2023 کا دن نہ دیکھا ہوتا۔

آہ! کہ اچانک ایک دوست نے واکی ٹاکی پہ خبر کر دی کہ کامریڈ اور گروُ جبار بزدل دشمن سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے ہیں، جیسے دنیا ہی لُٹ گئی، ہمارے پہاڑ کا شہزادہ اپنے دوست گُروُ جبار کے ہمراہ دشمن کے حصار کو توڑ کر اپنے دوستوں کو محفوظ راستہ فراہم کرتے ہوئے جان نچاور کرگئے۔

مجھے یقین ہے کہ دوستوں کی موجودگی میں موت کے وقت بھی اس کے چہرے پہ مسکراہٹ ہوگی اور اس کے آخری الفاظ ظہیرالدین بابر سے منقول ہونگے کہ “دوستوں کے ساتھ موت بھی عید جیسا مزہ رکھتی ہے۔”

عہد ساز کرداروں کا ظہور ہر دور میں ہوتا رہا ہے۔ ان کے جانے سے آنکھوں کا برسنا اور دل کا رنجیدہ ہونا فطری ہے لیکن وہ آدرش جو وہ چھوڑ چکے ہوتے ہیں وہی رہنمائی کرتے رہینگے اور انہی پہ عمل پیرا ہوکر آئے روز کامریڈ جنم لیتے رہینگے اور یوں تاریخ کے بناؤ سینگار کا عمل جاری وساری رہے گا۔

اس کے جانے سے پہاڑ، جنگل، ندی، نالے سب اداس لیکن اس کی بہادرانہ زندگی اور اس کی دلیر موت پہ بلوچستان کے پہاڑ بھی اپنے شہزادے کے سامنے سر بسجود ہیں ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔