پاکستان کے مقتدر حلقے اور افغان مہاجرین – اسماعیل حسنی

216

پاکستان کے مقتدر حلقے اور افغان مہاجرین

تحریر: اسماعیل حسنی

دی بلوچستان پوسٹ

ہمارے مقتدر حلقے تین ہیں، جرنیل، سیاست دان اور مولوی۔ یہی ہمارا نظام ہے، جج ان ہی کے تابع چلتے ہیں، پاکستان کے اس تکون نظام میں عوام کی نظر میں ایک چھوٹی سی مسجد کا خوار و زار امام سپریم کورٹ کے کسی بڑے سے بڑے جج سے بھی زیادہ طاقت وَر ہے، ججز تو اس تکون نظام کے آگے بالکل یوں ہی بے بس ہیں جیسے کہ سسلی میں مافیا کے ہاتھوں بے بس تھے، یہ دو منٹ میں آگ لگا سکتے ہیں لاشیں گرا سکتے ہیں، ہمارا مقتدر حلقہ اس تکون پر مشتمل ہے، تکون مقتدر حلقہ میں شریک لوگ بڑے ہی بے رحم اور احسان فراموش ہیں، آپ غور کریں کہ افغانستان میں امریکی مفادات کی تکمیل اور سوویت روس کا راستہ گرم سمندر تک رسائی سے روکنے کےلیے پاکستان میں سن 70ء کی دہائی میں جنگی تربیت کےلیےٹریننگ سنٹرز اسی مقتدر حلقہ کی منظوری سے ہی قائم ہوئے، جرنیلوں نے امریکہ سے ہدایات لیکر سیاست دانوں کو گائیڈ لائن دےدیا، سیاست دانوں میں سیاست باز مولویوں، درباری شیخ الاسلاموں اور سرکاری مفتی اعظموں نے عوام میں روس کے خلاف رائے عامہ ہموار کرکے اس پرائی جنگ کو جھا د کا مقدس ٹائٹل دیکر دو برادر پڑوسی اسلامی ممالک کی کل آبادی سے پچاس پچاس فیصد (نوجوان طبقہ کسی بھی آبادی کا پچاس فیصد ہوتا ہے) کو مشتعل کرکے ورغلایا اور لڑنے پر اکسادیا۔ یہ تینوں حلقے باہم مل کر چند ٹکے کرایہ کی خاطر امریکہ کے مفادات کی تکمیل کےلیے پرائیویٹ تنظیموں کے سہارے پر روس کے ساتھ لڑنے کو عین شرعی فرض قرار دے ڈالا۔ جرنیلوں نے پروموشن لیکر کرایہ کی صورت میں کمیشن وصول کی، سیاست دانوں کو کرپشن کا فری ہینڈ دے دیا گیا اور مولویوں نے بڑے بڑے مدارس، جامعات اور مساجد کی تعمیر کی شکل میں اپنا معاوضہ وصول کرلیا۔ اس مقتدر حلقے کی آل و اولاد عیش و عشرت کی خاطر ایک پورا ملک کو تاراج کیا گیا اور اپنے اپنے ملک کے نوخیز نوجوانوں کو بہلا پھسلا کر ان کا برین واش یوں کیا گیا کہ جو اس دنیا سے رخصت ہوگئے ان کے والدین نے تاحیات اپنے جگر گوشوں کے انتظار میں خون کے آنسو روتے بسر کیے اور جو جنگ سے بسلامت واپس ہوئے انہیں مرتے دم تک کچھ سمجھ نہ آئے کیا ہمارے ساتھ کیا ہوا، وہ تو وہ بلکہ اس برین واشنگ سے ان میں سے بعض کی آئندہ نسلیں بھی اپنے والد، دادا اور پردادا کے دوست و دشمن میں فرق اور خیرخواہ و بدخواہ کے مابین تمیز کرنے سے قاصر رہیں گے۔ اس کشمکش میں تیس لاکھ سے زائد افراد کی نسل کشی کی گئی، اس تعداد سے بھی زیادہ لوگ زخمی، اپاہج معذور اور مفلوج ہوگئے، کتنے بچے یتیم، کتنی عورتیں بیوہ اور کتنے بوڑھے اور ضعیف ماں باپ بےسہارا ہوگئے۔ امریکہ کی جنگی ضرورت کےلیے پاکستان میں مہاجر کیمپس بنائے گئے، افغانیوں کو اپنے معاشی کرایہ کی خاطر گھروں سے گھر در بہ در اور وطن سے بے وطن کردیا گیا۔ پچاس برس بعد جب امریکہ کی جنگی حکمت عملی تبدیل آگئی اور پاکستان کو جنگوں کی مد میں ملنے والی فنڈز کےلیے مزید کوئی صورت باقی نہ رہی تو اب ان نہتے افغانیوں کو انتہائی مختصر وارننگ کے نتیجے میں جائیدادیں فروخت کیے اور سامان سمیٹے بغیر ملک بدر کیا جارہا ہے، حالانکہ اس تمام دورانیے میں ان کے نام پر محکمے بنائے گئے، محکمہ داخلہ اور سیفران کی منسٹری نے پچاس برس افغان رفیوجیز کے نام پر دنیا بھر سے مدد لیتی رہیں۔ مختلف قسم کے کفالتی ادارے قائم کیے گئے جن میں شاید 20 فیصد بھی افغانیوں کی کفالت کو ممکن نہیں بنایا گیا، مہاجرین کے نام پر اقوام متحدہ اور امریکہ سے بھی ڈالر کی صورت میں رقمیں وصول کی گئیں، اگرچہ ان بیچاروں کو ملا تو کچھ بھی نہیں اور نہ ہی انہیں اتنا شعور لینے دیا گیا کہ وہ اپنے ایسے حقوق کی پہچان کرسکیں، اب نہایت بے دردی سے نکال رہے ہیں۔ یہی کام وہ سرکاری طور پر اعزاز کے ساتھ بھی کرسکتے تھے، اپنے مہمان مسلم بھائیوں کو اکرام کے ساتھ بھی رخصت کرسکتے تھے جیسے کہ انہیں پچاس برس قبل بلوایا گیا تھا۔ افسوس یہ تصویر دیکھ کر آنکھوں میں آنسو آجاتا ہے کہ ان افغان بیچاروں کی نصف صدی کیسے برباد کی گئی، یہ اگر اپنے ہی ملک میں ہوتے تو آج شاید ہم سے بھی معاشی ترقی میں پیش رفت کرچکے ہوتے، ہم پچاس برس بعد روس کی طرف لالچ بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں، افغانیوں نے سن ساٹھ کی دہائی میں روس کے ساتھ ہمارے سی پیک سے بھی زیادہ ایک بہت بڑے پروجیکٹ پر ایگریمنٹ کرچکے تھے جس میں کسی عقیدہ اور مسلک کا ایشو نہ تھا جسے ہمارے کرایہ کے جرنیلوں، مولویوں اور سیاست دانوں نے مذہب کی لڑائی کہہ کر ایک ابھرتی ہوئی اسلامی طاقت کو اپنی مفادات کی بھینٹ چڑھایا تھا، اب جو سلوک روا رکھے ہوئے ہیں وہ تو انسانیت کی سطح سے بھی نیچ درجے کا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔