پاکستانی خفیہ اداروں کا راشد حسین کی حراست میں ہونے کی تردید، لواحقین کی انصاف کا مطالبہ ‏

330

انسانی حقوق کے لاپتہ کارکن راشد حسین کے لواحقین نے کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات سے حراست بعد پاکستان میں جبری گمشدگی کے شکار بلوچ سیاسی کارکن کے کیس کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔

بلوچستان کے علاقے خضدار سے تعلق رکھنے والے بلوچ سیاسی کارکن راشد حسین بلوچ کی جبری گمشدگی کیس کی شنوائی آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایمان مزاری کی مدعیت میں ہوئی جبکہ عدالت میں آج ڈیفنس منسٹری نے اپنی رپورٹ جمع کرائی-

لواحقین کے مطابق پیر کو ہونے والے اس کاروائی میں اسلام ہائی کورٹ میں وزارت دفاع کی جانب سے پیش ہونے والے افسر نے عدالت کو بتایا کہ لاپتہ بلوچ کارکن راشد حسین نا آئی ایس آئی اور ناہی ملٹری انٹیلجنس کے تحویل میں ہے اور نا ہی ان اداروں نے راشد حسین کو گرفتار کیا ہے-

واضح رہے اس سے قبل رواں سال فروری میں عدالت کی جانب جاری نوٹس کے جواب میں وزارت خارجہ کے دفتر نے راشد حسین کی متحدہ عرب امارات سے پاکستان حوالگی کی تصدیق کردی تھی-

اس حوالے سے راشد کے ہمشیرہ نے اپنے سوشل میڈیا ہینڈل ایلس پر عدالتی کاروائی پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ گذشتہ پانچ سالوں سے وہ عدالتوں میں پیش ہوکر اپنے ثبوت فراہم کررہے ہیں عدالتوں کی جانب سے انھیں تاریخ اور کیس کاروائی کو مزید دن بڑھانے کے علاوہ کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے-

فریدہ بلوچ نے عدالتی کاروائی کی کاپی پوسٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ متحدہ عرب امارات میرے بھائی کو پاکستان کو حوالے کرنے کا کہہ رہا ہے پاکستان اسکے واپسی کی دعویٰ کے بعد اب اپنے ہی بیان سے مُکر گئی ہے تو میرا بھائی کہاں غائب ہو گیا-

انہوں نے کہا ہے کہ راشد حسین کہیں سے بھی لاپتہ ہوا البتہ وہ اس ملک کا ایک شہری ہے ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ہمیں اس کے سلامتی کے حوالے معلومات فراہم کرے اور اسکی بازیابی یقینی بنائے-

یاد رہے راشد حسین کو سال 2018 میں متحدہ عرب امارات سے جبری لاپتہ کیا گیا تھا جس کے بعد سے وہ منظرعام پر نہیں آسکے ہیں-

راشد حسین کے لواحقین گذشتہ پانچ سالوں سے انکی بازیابی کے لئے سراپا احتجاج ہیں انکا کہنا ہے کہ راشد حسین کو پاکستان کے کہنے پر بیک چینل ڈپلومیسی کے ذریعے متحدہ عرب امارات سے لاپتہ کیا گیا اور راشد حسین کی جبری گمشدگی میں دونوں ریاستیں براہ راست ملوث ہیں-