لاپتہ سیف اللہ رودینی کی جبری گمشدگی کے خلاف سوشل میڈیا مہم کا انعقاد

157

بلوچ وائس فار جسٹس اور جبری لاپتہ سیف اللہ رودینی کے خاندان کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر ایک مہم چلائی گئی، یہ مہم سوراب بلوچستان کے رہائشی سیف اللہ رودینی کی جبری گمشدگی کو 10 سال کا طویل عرصہ مکمل ہونے کے موقع پر چلائی گئی۔ سیف اللہ کو 22 نومبر 2013 کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا تھا، وہ محمکہ پولیس میں ملازم تھا اور اب تک لاپتہ ہیں۔

مہم میں مختلف سیاسی و سماجی تنظیموں و پارٹیوں کے رہنماؤں و کارکنوں، انسانی حقوق کے کارکنوں، سوشل میڈیا ایکٹوسٹس سمیت وکلاء و صحافیوں نے حصہ لیا اور انہوں نے جبری لاپتہ سیف اللہ رودینی سمیت تمام لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے جبری گمشدگیوں اور لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں قتل کرنے کا سلسلہ روکنے کا مطالبہ کیا۔

ایم کیو ایم کے مرکزی کوارڈینیشن کمیٹی کے کنوینئر مصطفیٰ عزیز آبادی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں جبری گمشدگی کا ایک اور پرانا کیس سیف اللہ رودینی جسے آج سے ٹھیک دس سال قبل گرفتار کرکے لاپتہ کردیا گیا۔
کیابلوچ ماؤں بہنوں، بزرگوں،بچوں اور نوجوانوں کی قسمت میں اسی طرح اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے تصویریں اٹھاکر فریادیں کرنا ہے؟

پشتون قوم پرست رہنماء سابق چیئرپرسن ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان سابق سینیٹر افرسیاب خٹک نے کہا ہے کہ صرف جبری گمشدگی کے شکار افراد کے اہل خاندان ہی نہیں بلکہ سارے عوام کہہ رہے ہیں، اور عدالتیں بھی سرکاری ایجنسیوں کا نام لیکر کہہ رہی ہیں کہ جبری گمشدگان کو رہا کرو ، بقول اسلام آباد ہائی کورٹ جج کیا آپ اقوام متحدہ کے کہنے کا انتظار کر رہے ہو؟

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی سینئر وائس چیئرمین ڈاکٹر جلال بلوچ نے کہا ہے کہ دس سال ریاستی عقوبت خانوں میں۔ ہمارے لیے یہ شاید دس سال ہوں، لیکن ان حالات سے گزرنے والا سیف اللہ اور اسکا خاندان جس کرب سے گزررہے ہیں اسے بیان کرنا ممکن ہی نہیں۔ یہی کہوں گا کہ آئیے بحیثیت انسان سیف اللہ کی بازیابی کے لیے اس کے خاندان کی آواز بنیں۔

سابق اسپیکر بلوچستان وحید بلوچ نے کہا ہے پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں جبری گمشدگی کا شکار ایک اور نوجوان۔ جسے ایک دھائی سے ماورائے عدالت زندان میں رکھے ہوئے ہیں یا قتل کرکے کسی ویرانے میں پھینک دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک پورا خاندان موت و زیست کے درمیان گٹھ گٹھ کر جی رہا ہے۔ اور ایک موہوم امید کے ساتھ سیف اللہ رودینی کی سلامتی کے لئے دعا گو اور واپسی کے منتظر ہیں۔

ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ ایڈووکیٹ شفیق احمد نے کہا ہے گزشتہ 10 سال میں کتنے آرمی چیف اور وزیراعظم آئے اور سب اپنے آپکو آئین کے تابع کہتے ہیں لیکن اگر سب آئین کے تابعدار تھے اور ہیں تو 10 سال سے اس بلوچ نوجوان سیف اللہ کس قانون کے تحت لاپتہ کیا اور اسے رہا کیوں نہیں کیا جارہا؟ کیا بلوچ کا کوئی آئینی حق نہیں؟

جرنلسٹ اور آن لائن نیوز وائس پی کے نیٹ کے ایڈیٹر و کو فاونڈر زری جلیل نے کہا ہے کہ یہ فرزانہ رودینی ہے، سیف اللہ کی بہن جو کوئٹہ میں پولیس اہلکار تھی۔ رودینی کو آج سے ٹھیک 10 سال پہلے 22 نومبر 2013 کو فورسز نے اغوا کیا تھا۔ پولیس ایف آئی آر درج کرنے میں ناکام رہی اور فرزانہ آج بھی اپنی رہائی کے لیے احتجاج کر رہی ہے۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے جنرل سیکرٹری و جبری لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی دین بلوچ نے کہا ہے کہ مہذب ممالک میں انصاف کا حصول دس منٹوں میں بھی ممکن ہے مگر یہاں دس سالوں سے ایک خاندان کو یہ تک نہیں بتایا جارہا ہے کہ سیف اللہ رودینی کہاں ہے کس حال میں ہے اور وہ کونسا جرم ہے جس کی وجہ سے جیل کے بجائے انھیں کسی عقوبت خانے کے حوالے کردیا گیا ہے۔

وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ کے چیئرپرسن سورٹھ لوہار۔ پاکستانی ریاست سندھی و بلوچ قوم کی نسل کشی کر رہی ہے۔ اقوامِ عالم سمیت تمام انسانی حقوق کے ادارے پاکستانی ریاست کی اس بربریت اور انسانی حقوق کی شدید پائمالی پر اپنا کردار ادا کریں۔ سیف اللہ رودینی کو آزاد کیا جائے۔

بلوچ وائس فار جسٹس کے رکن لطیف بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان میں ایک انسانی المیے نے جنم لیا ہے۔ یہ صرف ایک سیف اللہ رودینی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ جبری گمشدگیوں سے ہزاروں لوگ متاثر ہیں اور ان کے اہل خانہ انتظار کی تکلیف دہ زندگی گزار رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں کردار ادا کریں۔

جبری لاپتہ سیف اللہ رودینی کی بہن نے کہا ہے کہ ۱۰ منٹ نہیں ۱۰ دن نہیں ۱۰ ماہ نہیں پورے ۱۰ سال سے میں اپنی بھائی سیف الله رودینی کی تصویر کو سینے سے لگا کر اس ظالم ریاست کے کمیشنوں، جے اے ٹیز کے چکر کاٹ رہی ہوں۔ نہ مجھے کوئی سننے والا ہے نہ میرے درد کو کوئی محسوس کرنے والا۔

دانشور میر محمد علی تالپور نے کہا ہے کہ جو لوگ اپنی اسلامی اقدار کے بارے میں بات کرتے ہوئے نہیں تھکتے وہ اس حد تک سنگدل اور ظالم ہیں کہ سیف اللہ رودینی کے خاندان کو 10 سال تک اپنے پیاروں سے محروم رکھا ہوا ہے اور انہیں معمول کی زندگی سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔ بلوچستان کے ہزاروں خاندان مشکلات کا شکار ہیں۔

بلوچ وومن فورم کے آرگنائزر شلی بلوچ نے کہا ہے کہ سیف اللہ رودینی کو آج دس سال کا عرصہ مکمل ہوچکا ہے جو ریاستی عقوبت خانوں میں بلوچ ہونے کا سزا کاٹ رہا ہے ، ان دس سالوں میں سیف اللہ کی فیملی جس درد اور کرب سے گزر رہے ہیں وہ الفاظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔

پشتون تحفظ موومنٹ کے مرکزی کمیٹی کے رکن زبیر شاہ آغا نے کہا ہے کہ سیف اللہ رودینی بلوچ کو جبری گمشدہ کئے گئے دس سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے ریاست پاکستان کی عدلیہ بھی دیگر اداروں کی طرح اغوا کاروں کے لیے سہولت کار کے طور پر کام کررہی ہے۔ سیف اللہ رودینی کا خاندان دس سال سے اجتماع سزا بھگت رہی ہے۔

بلوچ وائس فار جسٹس کے کواڈنیٹر برائے سوشل میڈیا کمپین یاسر بلوچ نے کہا ہے کہ جبری گمشدگی جیسے غیر انسانی عمل کے خلاف اگر ہم ایک ساتھ آواز اٹھائیں گے تو انصاف کی توقع جلدہوگی اپنے پیاروں کو بچانے کیلئے ایک دوسرے کی آواز بنیں۔

لندن میں مقیم انسانی حقوق کے کارکن پیٹر ٹیچل نے کہا ہے کہ سیف رودینی کو آج سے 10 سال قبل پاکستانی فورسز نے مقبوضہ بلوچستان میں اغواء کیا تھا – اس کے بعد کبھی نہیں دیکھا گیا وہ ان ہزاروں بلوچوں میں سے ایک ہے جنہیں پاکستان کی خفیہ نوآبادیاتی جنگ میں اغوا، تشدد اور قتل کا کیا جاتا ہے۔