فیک انکاؤنٹر ۔ عزیز سنگھور

284

فیک انکاؤنٹر

تحریر: عزیز سنگھور
دی بلوچستان پوسٹ


نومبر کا مہینہ مکران ڈویژن کے لئے فیک انکاؤنٹرز کا بدترین مہینہ ثابت ہوا۔ جعلی مقابلے کی جعلی کہانیاں گڑھی گئیں۔ جھوٹ پرمبنی قصے سنائے گئے۔ کسی کو دھماکے کے نام پر قتل کردیا گیا تو کسی کو فائرنگ کے تبادلے کے نام پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ یہاں تک کہ عدالت سے دس روزہ جسمانی ریمانڈ والے نوجوان کو بھی نہیں بخشا گیا۔ گناہ گاروں کو مارنا سمجھ میں آتا ہے۔ بے گناہوں اور بے قصوروں سے اسکور پورا کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔

23 نومبر 2023 کو بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے جعلی مقابلے میں قتل ہونے والے بالاچ مولابخش کی میت کے ساتھ لواحقین نے شہید فدا چوک پر دھرنا دیا۔ بالاچ کی میت کو سیشن کورٹ تربت کے مین گیٹ کے سامنے رکھ کر بھی احتجاج کیا گیا۔ دھرنے میں خواتین سمیت عوام کی بڑی تعداد موجود تھی۔ اور جعلی مقابلے کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔ لواحقین نے بالاچ کے قتل میں ملوث سرکاری اہلکاروں کی گرفتاری کا بھی مطالبہ کیا۔ لواحقین کے مطابق جعلی مقابلے سے دو دن قبل بالاچ کو سی ٹی ڈی نے تربت کے مقامی عدالت میں پیش کرکے ان کا دس روزہ جسمانی ریمانڈ لیا تھا۔ واضح رہے کہ 23 نومبر 2023 کی صبح بالاچ کو تربت میں چار افراد کے ساتھ جعلی مقابلے میں قتل کردیا گیا۔ قتل ہونے والے بالاچ کا تعلق تربت کے علاقے آبسر سے تھا۔ انہیں 29 اکتوبر 2023 کی رات ایک بجے کے قریب تربت سے جبری طور پر لاپتہ کیا تھا۔ قتل ہونے والے نوجوان کا تعلق انتہائی غریب خاندان سے ہے اور نوجوان اسٹار پلس مارکیٹ تربت میں کشیدہ کاری کا کام کرکے اپنے گھر والوں کی کفالت کرتا تھا۔ ایک دن بعد قتل ہونے والے تین دیگر افراد کی بھی شناخت ہوگئی۔ قتل ہونے والے سیف اللہ ولد امید علی کا تعلق ضلع کیچ کے علاقے پیدارک سے تھا۔ جبکہ سیف بلوچ اور شکور بلوچ کے ناموں سے دو مزید افراد کی شناخت ہوگئی۔ سیف بلوچ کو یکم اگست کو تربت سے اور شکور بلوچ کو 25 جون کو تمپ سے جبری لاپتہ کیا گیا تھا۔
بلوچستان بار کونسل نے تربت میں فیک انکاؤنٹر کے خلاف عدالتی کاروائی کا بائیکاٹ کیا ۔ جبکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کیچ کی کال پر تربت میں شٹرڈاؤن ہڑتال کی گئی۔

بالاچ کے جعلی مقابلے سے چند روز قبل کیچ کے علاقے بالگتر میں ایک دھماکے میں تین افراد کے مارے جانے کی خبر سامنے آئی ۔ تاہم بعدازاں پتہ چلا کہ یہ دھماکہ بھی جعلی تھا۔ تینوں افراد پہلے سے حراست میں تھے۔ دھماکے میں مارے جانے والی کی شناخت عادل ولد عصا، شاہ جہان ولد عصا اور نبی داد ولد لیواری کے ناموں سے ہوئی۔ اس طرح کے ماورائے عدالت گرفتاریوں اور قتل تشویشناک عمل ہے۔
ویسے تو پورے بلوچستان میں جعلی مقابلوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ تاہم مکران ڈویژن میں ان جعلی مقابلوں کی بھرمار ہے۔

بلوچستان نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے چیئرمین غلام محمد بلوچ، شیرمحمد بلوچ اور لالہ منیر بلوچ کو اپریل 2009 میں لاپتہ کردیا گیا تھا۔ اور نو اپریل 2009 کو تربت کے علاقے مرگاپ سے ان کی تشدد شدہ لاشیں ملیں۔ ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت کے علاقے آبسر میں 13 اگست 2020 کو حیات بلوچ نامی ایک طالب علم کو ان کی ماں اور باپ کے سامنے گولیوں سے بھون دیا گیاجوکراچی یونیورسٹی کے طالب علم اور تربت کے علاقے کولوائی بازار کا رہائشی تھا۔

اسی طرح جولائی 2022 کے دوسرے ہفتے میں نو لاپتہ افراد کو ضلع زیارت میں ایک جعلی مقابلے میں ماردیا گیا۔ بعد ازاں ان لاشوں کی شناخت شمس ساتکزئی، شہزاد دہوار، مختیار بلوچ اور سالم کریم بخش اور دیگر کے ناموں سے ہوئی تھی۔ اور انکی جبری گمشدگیوں پر لواحقین سراپا احتجاج بھی تھے۔

اس جعلی مقابلے کے خلاف لواحقین اور دیگر لاپتہ افراد کے خاندانوں نے کوئٹہ میں ریڈ زون میں 52 دنوں کا دھرنا دیا تھا۔ لواحقین کی جانب سے ہونے والے احتجاج پر پولیس نے دھاوا بول کر شرکا پر شدید لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا گیا۔ متعدد خواتین و بچیوں کی حالت غیر ہوئی۔ جبکہ کئی افراد بیہوش ہوئے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ جس طرح زیارت میں پہلے سے زیر حراست لاپتہ افراد کو قتل کیا گیا تھا انہیں ڈر ہے ان کے جتنے بھی پیارے اس وقت سرکاری تحویل میں ہیں ان کے ساتھ ایسا ہی ہوگا۔

مظاہرین نے حکومت بلوچستان کو 3 مطالبات پیش کئے ہیں جن میں زیارت واقعے پر جوڈیشل کمیشن کی تشکیل، تمام لا پتہ افراد کی باحفاظت رہائی اور لاپتہ افراد کو اس بات کی یقین دہانی کرائی جائے کہ دوبارہ کسی بھی زیر حراست شخص کو جعلی مقابلوں میں نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ دھرنے نے بلوچستان سمیت اسلام آباد کے ایوانوں کو ہلاکر رکھ دیا۔ اس وقت کے وزیراعظم شہباز شریف نے ایک خصوصی کمیٹی بنائی۔ کمیٹی کے ارکان نے ریڈ زون میں جاری دھرنے کے کیمپ کا دورہ کیا۔ وفاقی کمیٹی میں اس وقت کے وفاقی وزیر قانون بیرسٹر اعظم نذیر تارڑ، وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور دیگر شامل تھے۔ سرکاری کمیٹی نے دھرنے میں بیٹھے مظاہرین سے مذاکرات کئے۔ تاہم لواحقین اور مظاہرین کا سب سے اہم مطالبہ تھا کہ جعلی مقابلے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ اگر کسی پر کوئی بھی الزام ہے تو انہیں پاکستانی عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ سزا دینا عدالتوں کا کام ہوتا ہے۔ جس پر وفاقی وزیر قانون بیرسٹر اعظم نذیر تارڑ اور وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے یقین دھانی کرائی کہ آئندہ کوئی گرفتار شخص کو جعلی مقابلے میں نہیں مارا جائیگا بلکہ انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائیگا۔ بلاآخر وزیراعظم کی لاپتہ افراد کیلئے قائم وفاقی کابینہ کی خصوصی کمیٹی کی یقین دہانی پر مظاہرین نے 52 روز سے جاری دھرنا ختم کردیا۔

وزرا کی یقین دھانی کے باوجود چند روز بعد مستونگ اور نوشکی میں دو الگ الگ جعلی پولیس مقابلے رونما ہوئے۔ ان جعلی مقابلوں میں مارے جانے والوں کی شناخت سلال ولد باقی بادینی جنہیں نوشکی سے 6 اکتوبر کولاپتہ کیا گیا تھا جبکہ فرید ولد عبدالرازق بادینی کو 28 ستمبر 2022 کو کوئٹہ اور تابش وسیم کو خضدار سے 9 جون 2022 کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ جبکہ عبدالرحیم ولد عبدالصمد کو 7 سال پہلے کوئٹہ سے جبری طور پرلاپتہ کیا گیا تھا جبکہ دوسرے کی شناخت عبیداللہ ساتکزئی ولد سلطان محمد کے نام سے ہوئی ہے جنہیں چار سال پہلے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

اس ملک میں عجیب قانون کا نظام قائم ہے۔ وفاقی وزیرقانون اور وزیر داخلہ کی بھی نہیں سنی جاتی ۔ عملاً کہا جاتا ہے کہ اس ملک میں سیکیورٹی اداروں کا سربراہ وزیرداخلہ ہوتا ہے۔ اور ملک کے آئین و قانون، وفاقی وزیر قانون کے اردگرد گھومتا ہے۔ مگر یہ سلسلہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔

بلوچستان کو مارو اور پھینکو جیسی پالیسیوں کی وجہ سے مزید شورش زدہ کردیا گیاہے۔ عام سیاسی و سماجی کارکن اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ باغیانہ سرگرمیوں سے منسلک ہوجاتے ہیں۔ اس کی ذمہ دار حکومتی پالیسیاں ہیں۔ ایسی پالیسیاں عام لوگوں کو مجبور کرتی ہیں وہ ہتھیار اٹھائیں۔ قلم سے ہتھیار کا سفر بے شمار طلبا نےطے کیا ہے۔ جن میں سرفہرست ڈاکٹر اللہ نذر، شئے اختر ندیم، بشیر زیب اور گنجل بلوچ شامل ہیں۔ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آزاد) کے سابق چیئرمین ڈاکٹر اللہ نذر، علی نواز گوہر اور شئے اختر ندیم، بی ایس او (متحدہ) کے سابق چیئرمین ڈاکٹر امداد بلوچ، ڈاکٹر یوسف بلوچ، ڈاکٹر نسیم بلوچ اور غلام رسول بلوچ کو چوبیس مارچ 2005 کو کراچی کے علاقے گلستان جوہر سے لاپتہ کردیا گیا تھا۔ لاپتہ ہونے سے چند روز قبل انہوں نے ڈیرہ بگٹی میں ڈاکٹر شازیہ خالد کے ساتھ ہونے والی مبینہ جنسی زیادتی اور اس سے پیدا ہونے والی صورتحال کے خلاف کراچی پریس کلب کے سامنے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔
ڈاکٹر امداد، ڈاکٹر یوسف، ڈاکٹر نسیم اور غلام رسول کو اٹھارہ مئی 2005 کو پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان کی سخی سرور پولیس تھانے میں پیش کیا گیا اور الزام لگایا گیا کہ چار مشکوک افراد کو حراست میں لیا گیا ہے بعد میں ان چاروں کو چوری کے ایک سال پرانے ایک مقدمے میں پانچ روز تک زیر تفتیش رکھا گیا اور پھر یہ کہہ کر رہا کردیا کہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا۔

رہائی پانے کے بعد ڈاکٹر امداد بلوچ نے ڈاکٹر اللہ نذر، شئے اختر ندیم اور علی نواز گوہر کی بازیابی کے لئے کراچی پریس کلب کے سامنے بھوک ہڑتال شروع کردی۔

بلاآخر ساڑھے چار ماہ بعد انہیں ڈرامائی طور پر پنجاب کےضلع رحیم یار خان کی صادق آباد پولیس کی حراست میں پیش کیا گیا۔ اور الزام لگایا گیا کہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ، علی نواز گوہر بلوچ اور اختر ندیم بلوچ کو صدر تھانے کے علاقے چندرامی میں مشکوک حرکات کرنے پر حراست میں لیاگیا ہے۔ ان پر رہزنی کے مقدمے لگائے گئے۔ عدالتوں کے چکر لگانے کے بعد انہیں ضمانت مل جاتی ہے۔ بعدازاں ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ، علی نواز گوہر بلوچ اور اختر ندیم بلوچ کے لئے ایسے حالات بنائے گئے وہ مجبوری کی عالم میں قلم کی جگہ ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوئے۔ کچھ سال بعد علی نواز گوہر بلوچ ایک مقابلے میں جان بحق ہوئے۔ آج بھی ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ اور شئے اختر ندیم اپنے دیگر ساتھیوں سمیت بلوچستان کے پہاڑوں پر موجود ہیں۔ جبکہ ڈاکٹر نسیم بلوچ بلوچستان چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ آج کل وہ فرانس میں رہائش پذیر ہیں اور بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے چیئرمین ہیں۔ حکومت کی جانب سے بی این ایم پر سرکاری سطح پر پابندی عائد ہیں۔ حالانکہ بی این ایم ایک غیر مسلح سیاسی جماعت ہے۔ وہ ایک ترقی پسند، جمہوریت پسند جماعت ہے۔ جو مارکس ازم کی پرچار کرتی ہے۔ اس کے باوجود ان کے کئی مرکزی رہنما پندرہ پندرہ سالوں سے زندانوں میں قید ہیں۔ جن میں ڈاکٹر دین محمد بلوچ سرفہرست ہیں۔ جبکہ ان کے کئی مرکزی قیادت کو جعلی مقابلے میں ماردیا گیا ہے۔ جن میں ڈاکٹر منان بلوچ، غلام محمد بلوچ، شیرمحمد بلوچ، لالہ منیر بلوچ سمیت دیگر رہنما شامل ہیں۔ واضع رہے کہ بلوچستان نیشنل موومنٹ کا نام تبدیل کرکے بلوچ نیشنل موومنٹ رکھا گیا۔ کیونکہ وہ بعد میں ایک عالم گیر تنظیم بن چکی تھی۔ آج وہ پوری دنیا کے بلوچوں کی نمائندہ تنظیم ہے۔ بی این ایم، بلوچستان سمیت فرانس، برطانیہ، جرمنی، امریکہ، کینیڈا، کوریا، خلیج کے ممالک میں سرگرم عمل ہیں۔ ہر ممالک میں ان کی تنظیمی ڈھانچہ موجود ہے۔ اقوام متحدہ کی ذیلی انسانی حقوق کی تنظیموں میں بی این ایم کے رہنماؤں کی نمائندگی ہوتی ہیں۔
یہ مہربانی حکومتی پالیسیوں کے نتائج ہیں۔ اگر وہ اپنی مارو اور پھینکو کی پالیسیاں نہ اپناتی تو آج ڈاکٹر اللہ نذر، اختر ندیم، عبدالنبی بنگلزئی اور بشیر زیب غیر مسلح افراد ہوتے اور حکومت کے لئے چیلنج نہیں ہوتے۔ اور نہ ہی بلوچ نیشنل موومنٹ ایک عالم گیر قوت بنتی۔
بلوچستان کے مسئلے کو سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ لاپتہ افرادکو جعلی مقابلوں میں قتل کرنے سے سنگین خدشات جنم لے رہےہیں۔ حکومت کو اس طرح کی پالیسی سے اجتناب کرنا چاہیئے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔