امریکی صدر جو بائیڈن نے پیر کو اسرائیل پر زور دیا ہےکہ وہ ایک ایسے وقت میں غزہ کے مرکزی ہسپتال شفا کی حفاظت کرے جب اس کے ارد گرد اسرائیلی افواج اور حماس کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے۔
صحت کے حکام نے پیر کو بتایا کہ اسپتالوں کے ارد گرد اسرائیل اور حماس کے درمیان لڑائی نے ہزاروں فلسطینیوں کو شمالی غزہ میں کچھ آخری محفوظ مقامات سےفرار پر مجبور کیا، جہاں شدید زخمی مریض، نوزائیدہ بچے اور ان کی دیکھ بھال کرنے والے ، رسد اور بجلی کی کمی کے ساتھ پھنسے ہوئےہیں۔
حماس کے زیر انتظام غزہ کی وزارت صحت نے کہا ہےکہ شفا اسپتال کے ایمرجنسی جنریٹر میں ہفتہ کو ایندھن ختم ہونے کے بعد سے تین بچوں سمیت 32 مریضوں کا انتقال ہو چکا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ 36 بچوں کے ساتھ ساتھ دیگر مریضوں کی موت کا خطرہ ہے کیونکہ زندگی بچانے والے آلات کام نہیں کرسکتے۔
اسرائیلی فوجی اس تنصیب سے صرف چند بلاکس کے فاصلے پر دکھائی دیتے ہیں۔ عہدہ داروں کا کہنا ہے کہ سینکڑوں مریض اور بے گھر افراد ہسپتال میں موجود ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس گیبریئسس نے کہا کہ شفا اب ایک ہسپتال کے طور پر کام نہیں کر رہا ہے۔
صدر بائیڈن نے پیر کے روز اسرائیل پر زور دیا کہ غزہ کے بڑے ہسپتال کی حفاظت کی جائے۔ وہ پیر کے روز اوول آفس میں نامہ نگاروں کے سوالوں کے جواب دے رہے تھے۔
صدر جو بائیڈن نے کہا، “آپ جانتے ہیں کہ جو کچھ ہو رہا ہے، اس پر اپنی تشویش کا اظہار کرنے میں میں نے تامل نہیں کیا اور یہ میری امید اور توقع ہے کہ ہسپتال کے حوالے سے دخل اندازی کی کارروائی کم کی جائے گی۔”
انہوں نے کہا، “ہم اسرائیلیوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ اس کے علاوہ، ایک کوشش ہے کہ قیدیوں کی رہائی سے نمٹنے کے لیے وقفہ لیا جائے گا اور اس پر بات چیت ہو رہی ہے۔ قطری بات کر رہے ہیں، اس لیے میں کسی حد تک پر امید ہوں، لیکن ہسپتال کو لازماً محفوظ بنایا جانا چاہیے۔”
امریکہ میں مسلمانوں کی سب سے بڑی سول رائٹس کی تنظیم The Council on American-Islamic Relations(کئیر)نے بھی صدر بائیڈن سے اپیل کی ہے کہ وہ فوری طور پر شفا اسپتال کا محاصرہ ختم کروائیں۔
اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں پر زور دیا ہے کہ وہ پیدل جنوب کی طرف فرار ہوجائیں جسے وہ محفوظ راہداری کہتے ہیں۔ لیکن حماس کے عسکریت پسندوں سے عام شہریوں کو الگ کرنے کا اس کا بیان کردہ ہدف بھاری قیمت پر عمل میں آیا ہے۔
غزہ کی 23 لاکھ کی آبادی میں سے دو تہائی سے زیادہ لوگ اپنے گھر بار چھوڑ چکے ہیں۔ ہفتے کے آخر میں غزہ کے شفا اسپتال سے ہزاروں افراد اس وقت فرار ہوگئے جب اسرائیلی فوجیوں نے اسے گھیرے میں لے لیا، اور ڈاکٹروں نے بتایا کہ پیر کے روز اس کے چاروں طرف فائرنگ اور دھماکے ہوئے۔
چند روز قبل شفا کے انکیوبیٹرز کے لیے بجلی ختم ہونے کے بعد، حماس کے زیر اقتدار غزہ میں وزارت صحت نے پیر کے روز ایک تصویر جاری کی جس میں کہا گیا ہے کہ ایک درجن قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کو ایک بستر پر کمبل میں لپیٹ کر مناسب درجہ حرارت پر رکھا گیا ہے۔ دوسری صورت میں ان کا کہنا ہے کہ، “وہ فوری طور پر مر جاتے”
وزارت صحت کے ڈائریکٹر جنرل، مدحت عباس نے مزید کہا کہ چار بچوں کی پیدائش ان کی ماؤں کے مرنے کے بعد سرجری کے ذریعے ہوئی تھی۔
ریڈ کراس پیر کے روز ایک دوسرے اسپتال القدس سے تقریباً 6 ہزار مریضوں، عملے اور وہاں پناہ لینے والے افراد کو نکالنے کی اس وقت کوشش کر رہا تھا جب وہ ایندھن کی کمی کی وجہ سے بند ہو گیا تھا، لیکن اس نے کہا کہ گولہ باری اور لڑائی کی وجہ سے اس کے قافلے کو واپس جانا پڑا۔
یہ لڑائی اب اپنے چھٹے ہفتے میں ہے، جو حماس کے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر اچانک حملے سے شروع ہوئی تھی، جس کے جواب میں غزہ بھر میں ہزاروں ہلاکتیں اور بہت زیادہ تباہی ہوئی ہے۔
فلسطینیوں کے لیے شفا عام شہریوں کے مصائب کی ایک علامت ہے۔ ہفتوں سے، سپلائی کی کمی پر چلنے والے عملے نے وہاں جنگ کے زخمی مریضوں کی بغیر اینستھیسیا کےسرجری کی ہے، جن میں بچے بھی شامل ہیں۔ کچھ دن پہلے تک، ہزاروں کی تعداد میں لوگ جو اپنے گھروں پر فضائی حملوں کے بعد وہاں سے فرار ہوئے تھے، اس امید پر کمپلیکس کے اندر اور اس کے آس پاس رہتے تھےکہ یہ محفوظ رہے گا۔
اسرائیل کا موقف
اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس خود عام شہریوں کوڈھال بناتی ہے، اور یہ کہ غزہ کا سب سے بڑا ہسپتال اس کی بہترین مثال ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں کا میڈیکل کمپاؤنڈ کے اندر اور اس کے نیچے ایک کمانڈ سینٹر ہے اور اس نے نقشے جاری کیے ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ وہ کمپلیکس میں کہاں واقع ہیں۔
لیکن اسرائیل نے اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیےبہت کم شواہد فراہم کیے ہیں۔ حماس اور شفا ہسپتال کا عملہ دونوں اسرائیلی الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
فلسطینیوں کا الزام ہے کہ اسرائیل ہسپتالوں پر اندھادھندفائرنگ کر رہا ہے جبکہ اسرائیل حماس پر اسپتالوں کو کور کے طور پر استعمال کرنے کا الزام لگاتا ہے۔
پیر کے روز اسرائیل نے ایک ویڈیو جاری کی جس میں دکھایا گیا کہ ایک جنگجو آر پی جی لانچر کے ساتھ القدس ہسپتال میں داخل ہو رہا ہے۔ قریب ہی ایک اسرائیلی ٹینک کھڑا تھا۔
اسرائیلی حکام نے حال ہی میں تصاویر اور فوٹیج جاری کی ہیں جس میں دکھایا گیا ہے کہ بندوق برداروں نے ایک دوسرے ہسپتال کے اندر سے فائرنگ کی اور اس کے ساتھ والی سرنگ کھولی، حالانکہ عملے کا کہنا ہے کہ یہ تنصیب کا زیر زمین ایندھن کے ٹینک کا داخلی راستہ تھا۔
انھوں نے رہائشی محلوں میں سرگرم عسکریت پسندوں اور اسکولوں، اسپتالوں اور مساجد کے قریب راکٹ اور ہتھیار رکھنے کی فوٹیج بھی شیئر کی ہیں۔
بین الاقوامی قانون جنگ کے دوران ہسپتالوں کو خصوصی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ لیکن بین الاقوامی کمیٹی آف ریڈ کراس کے مطابق اگر جنگجو ان کا استعمال جنگجوؤں کو چھپانے یا اسلحہ ذخیرہ کرنے کے لیے کرتے ہیں تو ہسپتال ان تحفظات سے محروم ہو سکتے ہیں۔