پاکستان کے نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کی سربراہی میں لاپتہ افراد سے متعلق کمیٹی پر وائس فار بلوچ مسنگ مسنگ پرسنز کے جنرل سیکٹری، لاپتہ ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی سمی بلوچ نے کہا ہے کہ جبری گمشدگیوں پر اس سے پہلے کئی کمیٹیاں بنائی گئی ہیں جیسے کہ COIOED جیسی کمیشن بنائی گئی اور گذشتہ سال IHC کی جانب سردار اختر جان مینگل کی سربراہی میں کمیشن بنایا گیا۔
انہوں نے کہاکہ ایک اور کابینہ کمیٹی اُس وقت کے حکومت کے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور وزیر قانون اعظم نزیر تارڈ کی سربراہی میں بنایا گیا اور انکی طرف سے آج تک کوئی نتیجہ سامنے نہیں آئی۔
سمی دین نے کہا کہ اب حکومت کی سنجیدگی کا مظاہرہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ جبری طور پر لاپتہ افراد کے کیسز کیلئے نئی کابینہ کمیٹی ایک ایسے شخص کی سربراہی میں بنایا گیا ہے جو جبری گمشدگی جیسے سنگین مسئلے کو ماننے سے انکاری ہے۔
انہوں کہاکہ انصاف تو دور کی بات ہے ایسے کمیٹیاں بناکر صرف اور صرف ہم متاثرہ خاندانوں کے جذبات اور ہمارے پیاروں کی زندگیوں سے کھیلا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان کے نگران حکومت نے جبری لاپتہ افراد کے کیسز کے لئے وفاقی کابینہ نے نگرا ن وزیرِ داخلہ سرفراز بگٹی کی سربراہی میں 3 رکنی وزرا کی کمیٹی کی منظوری دے دی ہے جس کی وزارت قانون نے انصاف نے نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ہے۔ تین رکنی کمیٹی کی منظوری وفاقی کابینہ نے 7 نومبر کو دی تھی اور وزارت قانون کے حکام نے نوٹیفکیشن اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش کیا۔
نوٹیفکیشن کے مطابق وزیرِ داخلہ چیئرمین، وزیرِ قانون اور وزیرِ دفاع کمیٹی کے ممبر ہوں گے، کمیٹی جبری گمشدگیوں کے کیسز کا جائزہ لے گی۔ نوٹیفکیشن میں بتایا گیا کہ کمیٹی انسانی حقوق کی تنظیموں سے بھی معاونت لے سکتی ہے۔
تاہم بلوچ قوم پرست جماعتوں اور لاپتہ کے لواحقین نے کمیٹی کو غیر سنجیدگی قرار دیتے ہوئے کہاکہ اس سے پہلے کئی کمیٹی بنی ہیں اب ایک ایسے شخص کی سربراہی میں کمیٹی بنائی گئی ہے جو اسمبلی اور ٹی وی ٹاک شوز میں لوگوں کو جبری لاپتہ کرنے کا دفاع کرتے ہیں۔
پاکستان کے نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کو ڈیرہ بگٹی میں امن لشکر کے نام پر ڈیتھ اسکواڈز چلانے کے طور پر جانا جاتا ہے جبکہ گذشتہ دنوں انہوں نے ایک ٹی وی شو میں اقرار کیا کہ وہ سیاسی جماعتوں شمولیت و مستعفی ہونے سے متعلق پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی سے مشورہ کرتے ہیں۔