حنفیت اور دورِ حاضر کے احناف – محمد اسماعیل حسنی

291

حنفیت اور دورِ حاضر کے احناف

تحریر: محمد اسماعیل حسنی

دی بلوچستان پوسٹ

حنفیت میں قرآن و سنت کے بعد سب سے اہم ماخذ قیاس ہے، قیاس کا مطلب ہے عقل و فکر کے پیمانے میں کسی رائے کو پرکھتے ہوئے فیصلہ کرنا۔ فقہ حنفی میں غور و فکر سے پتہ چلتا ہے کہ بسا اوقات قیاس کو حدیث پر بھی فوقیت دی گئی ہے، یہ محض الزام نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے بحیثیت حنفی ہم کم از کم اس حقیقت پر نہ کوئی عار محسوس کرتے ہیں اور نہ ہی معذرت خواہانہ رویہ اپناتے ہیں۔ (اس حقیقت پر ہم ذرا آگے جاکر عرض کریں گے کہ حنفی فقہ میں کُل کتنی روایات سے استنباط کی گئی ہیں۔)

جہاں تک قیاس کے جواز اور عدم جواز کے بارے میں علماء کے مذاہب ہیں، اس مسئلے میں بنیادی طور پر دو ہی گروہ ہیں۔ ایک گروہ اسے قطعاََ ناجائز خیال کرتا ہے۔ پھر خود اس گروہ کے بھی دو مذاہب ہیں۔ مجموعی لحاظ سے ان کی دلیل یہ ہے کہ قرآن کریم خود ایک کامل کتاب ہے، جس میں ہر بات کا حکم موجود ہے۔ لہذا شرعی امور میں عقل و قیاس کی سرے سے گنجائش ہی نہیں۔ متقدمین میں ظاہری فرقہ کے لوگ اسی خیال کے حامل تھے اور متاخرین میں پنجاب کے فرقہ اہل قرآن نے بھی اسی ہی مسلک کو اختیار کیا ہوا تھا لیکن حیرت انگیز طور پر نہ ظواہر کو دوام ملا اور نہ ہی اہل قرآن کا فرقہ آگے بڑھ کر اپنا وجود برقرار رکھ پایا۔ اس لئے کہ ان کا بنیادی تصور خود منشائے قرآنی کے خلاف تھا۔ یہ گویا کہ ایک گروہ تھا جن کے ہاں شرع میں عقل و قیاس کا دروازہ مسدود ہے۔ ایک دوسرا گروہ کہتا ہے کہ صرف قرآن ہی نہیں بلکہ قرآن اور حدیث دونوں کو اکٹھا کر لیا جائے تو ان میں معاملات کے احکام مل جاتے ہیں اور کوئی بات ایسی نہیں رہ جاتی جس کےلئے قیاس سے فیصلہ کرنے کی ضرورت پڑے۔ چنانچہ ایک بار پنجاب میں مذہبی فسادات کی تحقیقاتی عدالت میں ایک عالم نے کہا تھا کہ اسلام میں ہر معاملہ کے متعلق پہلے سے ہی احکام موجود ہیں۔ اس لئے اس میں قانون سازی کی گنجائش ہی نہیں۔

جو لوگ قیاس کے حق میں ہیں وہ قرآن اور حدیث دونوں سے اپنے مسلک کی تائید پیش کرتے ہیں۔ البتہ ان میں اس باب میں اختلاف ہے کہ قیاس کی کہاں ضرورت پڑتی ہے اور وہ کس حد تک قابل اعتماد ہے؟ اہل حدیث حضرات کا عام طور پر یہ عقیدہ ہے کہ حدیث خواہ ضعیف ہی کیوں نہ ہو، اسے قیاس پر ترجیح دی جائے گی۔ لہذا ان کے نزدیک قیاس کے ذریعہ اجتہاد کی وسعت بہت محدود ہے۔ یہی دو گروہ تھے جن کے ہاں دین میں عقل و قیاس ہے ہی نہیں۔ ان دونوں کے برعکس ایک تیسرا گروہ جنہیں احتراماً اہل فقہ بھی کہا جاتا ہے اور طعن اور طنز کے طور پر اہل الرائے بھی، جن کا سرخیل امام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمہ ہیں۔

فقہ حنفی شریعت میں قیاس کو بڑی وسعت دیتا ہے نہ صرف فروع (فقہ) میں بلکہ اصول (عقائد) میں بھی۔ یہی وجہ ہے کہ عموماً کہا جاتا ہے کہ امام ابوحنیفہ نے اپنی فقہ مرتب کرتے وقت احادیث سے بہت کم مدد لی ہے اور یہ ایک حقیقت بھی ہے۔ امام اعظم نے احادیث سے اتنی کم مدد لی ہے کہ ان کے ہاں تقریبا کل سترہ (17) یا اٹھارہ (18) حدیثوں سے زیادہ روایات سے استنباط کی بنیادیں ملتی ہی نہیں۔ وہ قرآن کریم کو ہی سامنے رکھ کر اجتہاد فرمایا کرتے تھے اور اسی کی روشنی میں نئے نئے معاملات کے متعلق مسائل و احکام مستنبط فرماتے تھے۔ اہل حدیث اور اہل الرائے حضرات کے درمیان یہی بنیادی اختلاف ہے۔ چونکہ امام اعظم (عراق) کوفہ کے رہنے والے تھے اور اس لئے اہل الحدیث ان کے مسلک کو طنزاً اہل عراق کا مذہب بھی کہتے تھے۔

علاقائی نسبتوں سے مخالف کو طنز و تشنیع کا ہدف بنا لینا یہ مزاج آج کا نہیں بلکہ شروع سے ہی علماء کرام کا پسندیدہ مشغلہ اور وطیرہ رہا ہے، امام اعظم پر اہل حدیث اس قدر خفا تھے کہ ان کی سن ولادت سے ”سگ“ کا لفظ نکالا جس کا معنی بنتا ہے ”کتا“ ، اپنے دور میں کوئی نیک نام نہیں پایا تھا، امام صاحب کے ایک ہم عصر اہل حدیث امام، عبدالرحمن بن مہدی کہتے ہیں کہ میں دجال کے فتنہ کے بعد اسلام میں کسی فتنہ کو ابوحنیفہ کے فتنہ سے نٹا نہیں دیکھتا۔ سلیمان بن حسان حلبی کہتے ہیں کہ میں نے بے شمار مرتبہ امام اوزاعی کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ ابوحنیفہ نے اسلام کے ایک ایک دستہ کو گن گن کر توڑا ہے۔ ایسے ہی امام ابوحنیفہ کے وفات کے وقت امام اوزاعی نے خوشی کا اظہار کیا۔ ابوعبیدہ کہتے ہیں کہ میں بغداد کے شہر رصافہ کی ایک مسجد میں اسود بن سالم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، کوئی مسئلہ زیر بحث آیا، میرے منہ سے نکل گیا کہ ابوحنیفہ اس بابت یوں کہتا ہے اسود نے مجھے سخت ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا کہ تو مسجد میں ابوحنیفہ کا تذکرہ کرتا ہے؟ کہتے ہیں کہ اسود مجھ سے ابوحنیفہ کا حوالہ دینے پر اس قدر ناراض ہوگئے کہ پھر مرتے دم تک میرے ساتھ سلام دعا تک ترک کر ڈالی۔

بات علماء کی نفرت انگیز مزاج اور تشدد اور طعن و تعریض میں کسی کے ساتھ علاقائی نسبتیں جوڑ کر اس کی علمی و فقہی حیثیت ختم یا کم کرنے کی ہورہی تھی، لگے ہاتھوں یہ بحث ایک واقعہ سے یہاں سمیٹ لیتے ہیں کہ حمدویہ بن مخلد کہتے ہیں کہ محمد بن مسلمہ المدینی سے پوچھا گیا کہ ابوحنیفہ کی رائے تمام شہروں میں گھس گئی ہے مگر مدینہ طیبہ میں داخل نہیں ہوسکی یہ کیوں؟ محمد بن مسلمہ نے فی البدیہہ مولویانہ انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مدینہ کی ہرگلی پر ایک فرشتہ مقرر ہے جو مدینہ میں دجال کو داخل نہیں ہونے دیتا۔ چونکہ فقہ حنفی دجالوں کا کلام ہے اس لیے مدینہ میں اس کا داخلہ ممکن نہیں۔ (دیکھا مولوی صاحب نے کیسے جواب دے دیا وہ بھی حدیث شریف سے؟) اس کے باوجود پھر ایک ایسا دور بھی آگیا کہ سات آٹھ سو برس تک مدینہ طیبہ کی خدمت کی سعادت احناف کے ہاتھوں میں ہی رہا۔

بات اہل اہل الحدیث اور احناف کے درمیان قیاس کے متعلق اس بنیادی اختلاف کے بارے میں ہورہی تھی، علاوہ ازیں خود احناف اور دیگر اہل فقہ کے مابین بھی قیاس بارے مختلف آراء پائی جاتی ہیں، اس کی بنیادی وجہ ان فقہوں کے ائمہ کے قیاس کے معاملے میں اختلاف رائے ہے۔ چنانچہ ہارٹن کی تحقیق کے مطابق نویں اور بارہویں صدی عیسوی کے دوران میں مسلمانوں میں کم و پیش ایک سو سے زیادہ فقہی مذہب پیدا ہوچکے تھے اور علامہ اقبالؒ کی تصریح کے مطابق پہلی صدی ہجری کے وسط سے چوتھی صدی تک قریب انیس فقہی مذاہب وجود میں آچکے تھے ۔ یہ تفصیل علامہ اقبالؒ کے خطبات میں بھی ہے۔ لیکن یہ سن کر یقیناََ آپ حیران ہوں گے کہ یہی اہل الرائے یا اہل قیاس حضرات جنہوں نے اہلِ حدیث حضرات سے اس بنیادی نقطہ پر اختلاف کیا تھا کہ زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں سے نت نئے مسائل سامنے آتے رہتے ہیں، جن کےلئے عقل و فکر اور قیاس ہی سے احکامات مستنبط کئے جا سکتے ہیں، اس لئے اجتہاد ایک ناگزیر امر ہے، رفتہ رفتہ یہ لوگ آگے چل کر خود اس عقیدہ کے حامل ہوتے چلے گئے کہ اب آئندہ کےلئے اجتہاد کا دروازہ ہمیشہ کےلیے بند ہے۔ جو کچھ سوچا جانا تھا سوچا جاچکا ہے۔ جتنا کچھ قیاس کیا جاسکتا تھا کیا چکا ہے، اب آنے والی نسلوں کےلئے ان ہی فیصلوں کی پابندی لازمی ہے جو ائمہ اسلاف کرچکے ہیں ، وہ اب اُن سے ادھر ادھر ہرگز نہیں ہٹ سکتے۔

آپ ذرا مقلد اور غیر مقلد کی بحثیں دیکھ لیں، مقلد یہی لوگ کہلاتے ہیں جو ائمہ اسلاف کے فیصلوں کی تقلید ضروری سمجھتے ہیں لیکن غیر مقلد کا معنی بھی ہرگز یہ نہیں کہ جو اجتہاد کا دروازہ کھلا سمجھتے ہوں یا عقل و فکر سے کام لیتے ہوں۔ بلکہ اجتہاد کا دروازہ تو ان میں سے کوئی بھی کھلا نہیں سمجھتا، نہ مقلد اور نہ ہی غیر مقلد۔

اہل فقہ اور اہل حدیث یہ دونوں اب مقلد محض ہیں، فقہ میں مقلد محض وہ ہیں جو ائمہ فقہ کے فیصلوں کی تقلید کرتے ہیں اور حدیث میں مقلد محض وہ ہیں جو ائمہ حدیث کے فیصلوں کی تقلید کرتے ہیں۔ اجتہاد کا سوال نہ ہمارے ہاں ہے نہ اُن کے ہاں، یعنی اس اعتبار سے اب دونوں کا ایک مقام ہی اور ایک ہی طرز عمل ہے۔ دونوں کا عقیدہ یہ ہے کہ جو فیصلے ہونے تھے وہ ہوچکے ہیں۔ اب قیامت تک آنے والی نسلوں پر ان ہی فیصلوں کا اتباع لازم ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایک گروہ کہتا ہے کہ یہ فیصلے فقہ کی کتابوں میں درج ہیں۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ نہیں یہ سب کچھ احادیث کے مجموعوں میں درج ہیں۔ ان مقلدین میں بھی مختلف گروہ ہیں، بعض صرف مطلق اجتہاد کے بند ہونے کے قائل ہیں اور بعض ہر قسم کی تقلید کے قائل ہیں۔ لیکن یہ فنی اور فروعی باتیں ہیں، جن کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ بنیادی مسئلہ وہی ہے جس کا ابھی تذکرہ ہوگیا ۔

سوال یہ ہے کہ اجتہاد کا دروازہ کھولنے والوں نے اُسے خود اپنے ہاتھوں سے آخر بند ہی کیوں کیا؟ اس کی کئی وجوہات بتائے جاتے ہیں لیکن سب سے بڑی اور یوں سمجھو کہ آخری وجہ سقوط بغداد کا معاملہ تھا۔ ملت اسلامیہ کا دینی مرکز تو کافی عرصہ پہلے ختم ہوچکا تھا۔ بغداد کی تباہی کے بعد (جو تیرہویں صدی عیسوی میں ہوئی تھی،) ان کی سیاسی مرکز بھی تباہ ہوگئی تھی اور اُمت میں ہر طرف انتشار ہی انتشار پھیل گیا تھا۔ ان حالات میں علامہ اقبالؒ کے الفاظ میں بیان کیا جائے تو وہ یوں ہے کہ :

”امت کو مزید انتشار سے بچانے کےلئے جو سیاسی زوال کا فطری نتیجہ ہوتا ہے ، قدامت پسند مفکرین نے یہی سوچا کہ قوم میں معاشرتی وحدت کو قائم رکھا جائے اور اس کا یہی طریقہ تھا کہ شرعی مسائل کے متعلق جو فیصلے فقہائے اسلام پہلے کرچکے تھے ، سب پر ان ہی کی پابندی لازم قرار دے دی جائے اور نئی نسلوں کےلیے اجتہاد کا دروازہ بند کر دیا جائے۔“

یعنی ان کے پیش نظر ملت کا معاشرتی نظم تھا اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ اس باب میں کسی حد تک حق بجانب بھی تھے ۔ اس لئے کہ جماعتی نظم زوال آور عناصر کی کچھ نہ کچھ روک تھام تو کر ہی دیتا ہے۔ لیکن اس وقتی مصلحت نے اسلام اور مسلمانوں کو کس قدر مستقل نقصان پہنچایا؟ اس فیصلہ نے تو عقل و فکر کا دروازہ ہی ہمیشہ کےلیے بند کردیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ رفتہ رفتہ امت میں تدبر و تفکر اور تعقل کی رہی سہی صلاحیت بھی مفقود ہوتی چلی گئی اور اسلام جو ایک حرکت کا نام ہے، محض چند رسوم کا مجموعہ بن کر رہ گیا۔

قوموں کے عروج و زوال ان کے ماضی کی تاریخ کے جھوٹے احترام اور مصنوعی احیاء سے نہیں ہوسکتا، آپ اپنے دور کی مذہبی جماعتوں پر غور کریں جو اسلام کے احیاء اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود کا دعوی لے کر اٹھتی ہیں۔ ان کی دعوت کا مرکزی نقطہ یہ ہوتا ہے کہ ہمیں اسلاف کے نقش قدم پر چلنا چاہئے۔ توحید کا سب سے زیادہ پرچار غیر مقلد کرتے ہیں، وہ مسائل میں بھی ائمہ مجتہدین کی تقلید کو شرک کے زمرے میں شمار کرتے ہیں، انہیں احناف کے ساتھ تو خدا واسطے بیر ہیں لیکن جب معاملہ سلف کا آجائے تو خود کو بڑے فخر کے ساتھ سلفی کہلوانا پسند کرتے ہیں، یعنی حنفی سلفیوں کے ہاتھوں خود کو حنفی بھی نہیں کہہ سکتے لیکن خود سلفی اپنے آپ کو سلفی کہنے سے بھی نہیں کتراتے۔

تقلید اگر امام ابوحنیفہ کی درست نہیں تو سلف کی کیسے درست ہوسکتی ہے؟ یہی کشادہ دلی احناف کو کرنا چاہیے کہ اگر ہم امام صاحب کی تقلید کرنے کا حق رکھتے ہیں تو یہ تقلید دوسروں پر لازم نہیں، وہ اپنی مرضی سے کسی کی بھی تقلید کرسکتے ہیں خواہ امام بخاری کی تقلید کریں یا امام مسلم کی یا پھر مطلق رویات کی۔

ہمیں اپنے ماضی کو دوبارہ زندہ کرلینا چاہیے، اختلاف رائے میں مشرک، بدعتی، منکرِ حدیث کے فتاوی سے باز رہنا چاہیے، اگر کوئی شخص غور و فکر کی دعوت دے تو فوراً یہ آواز بلند نہیں ہونی چاہیے کہ ایسی غور و فکر سے تو ایمان سلب ہوجاتی ہیں ۔ جو اسلام کی سب سے بڑی خدمت اس میں سمجھتے ہیں کہ اپنے قائدین کے ہر حکم کی اطاعت کی جائے اور ان کے کسی فیصلوں پر تنقید کی نگاہ نہ ڈالی جائے وہ غلطی پر ہیں۔ وہ اپنے جماعتی تعصب کو مذہب سے والہانہ شیفتگی سمجھتے ہیں اور اس مقدس فریب میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہمارے اس مشن سے ملت کو عروج اور اسلام کو ترقی نصیب ہوگی۔ یہی وہ رحجان تھا جو سقوط بغداد کے بعد پیدا ہو اور یہ زوال بدستور جاری ہے تا آنکہ جب تک اس کا حل نہ نکالا جائے۔

پاکستان میں تو بدقسمتی سے اسے اور بھی شدت کے ساتھ ابھارا جا رہا ہے۔ ہمارے ہاں مذہبی طبقے کا یہ رجحان کہ ماضی کی غلط تقدیس سے جماعتی نظم کو جامد اور متصلب طور پر پیش کیا جاتا ہے، کوئی بھی شخص معمولی حد تک عقل و فکر کا استعمال کرے تو اسے فتنہ قرار دیا جاتا ہے، پھر فتوی صادر کیا جاتا ہے کہ اس فتنہ کو کچل دو ۔ یہ امت میں انتشار پیدا کرنا چاہتا ہے۔ یہ ایک نیا اسلام ایجاد کرنا چاہتا ہے۔ یعنی وہ اپنے جماعتی نظم کو اسلام کے نام کی غلط طور پر پیش کرتے ہیں اور اپنی جماعتی مسلک کی تقلید کو تشدد کے زور پر قائم رکھنا چاہتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔