جنوبی افریقہ کی وزیر خارجہ نے پیر کو کہا کہ جنوبی افریقہ فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے ساتھ جنگ میں شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافے کے درمیان اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کا جائزہ لینے کے لیے اس ملک سے اپنےسفارت کاروں کو واپس بلا رہا ہے۔
جنوبی افریقہ طویل عرصے سے مشرق وسطیٰ میں امن کا حامی رہا ہے اور اس نے فلسطینیوں کی حمایت کرتے ہوئے ان کی حالت زار کو اپنے ملک کی اس نسل پرست حکومت کے دور سے تشبیہ دی ہے جو 1994 میں طویل جدوجہد کے بعد ختم ہوئی تھی۔
سفارت کاروں کی واپسی کو ایک “نارمل پریکٹس” قرار دیتے ہوئے، وزیر خارجہ نالیڈی پنڈور نے کہا کہ واپس بلانے کا مقصد یہ طے کرنا ہے کہ “کیا آپ کے پاس معاونت کا کوئی امکان ہے؟ اور آیا جاری تعلقات درحقیقت ہر لحاظ سے برقرار رہنے کے قابل ہیں۔”
جنوبی افریقہ کا اسرائیل میں کوئی سفیر نہیں ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ان کے ملک کو فلسطینی سرزمین پر بچوں اور بے گناہ شہریوں کی مسلسل ہلاکتوں پر انتہائی تشویش ہے۔
اسرائیلی رد عمل
اسرائیل کے غزہ پر حملوں کی وجہ سات اکتوبر کو امریکہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دی جانے والی تنظیم حماس کا اسرائیل پر وہ حملہ ہے جس میں اس کے کہنے کے مطابق 14 سو افراد ہلاک ہوئے تھے اور 220 کے لگ بھگ افراد کو حماس کے جنگجو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ لے گئے تھے جن میں متعدد غیر ملکی بھی شامل ہیں۔
اسرائیلی وزارت خارجہ نے جنوبی افریقہ کے اقدام کے ردعمل میں ایک بیان میں کہا، “جنوبی افریقہ کی حکومت کا اپنے سفارتی عملے کو واپس بلانے کا فیصلہ دہشت گرد تنظیم حماس کے لیے ایک فتح ہے اور بقول اس کے، 7 اکتوبر کو کیے گئے قتل عام کا “Reward”ہے۔”
اس نے کہا کہ اسرائیل توقع کرتا ہے کہ جنوبی افریقہ حماس کی مذمت کرے گا اور “اپنے دفاع کے اسرائیل کے حق کا احترام کرے گا۔”
حماس کے مہلک حملے میں 1,400 سے زیادہ لوگوں کی ہلاکت کی جنوبی افریقہ نے مذمت کی تھی، جبکہ یرغمالوں کی واپسی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔