جبری لاپتہ بلوچ رہنما ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی دین نے پاکستان کے نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ جہاں ہزاروں گھروں میں ظلمت تاریکی کی ماتمی سماں ہے، ہم جیسے ہزاروں بچے جو یہ نہیں جانتے کہ ہم یتیم ہیں یا اب بھی اپنے بابا کی واپسی کی آس لگائے بیٹھیں، ہزاروں عورتیں نیم بیوہ کی زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں، کئی منگیتریں اداسی کی تفسیدہ کامی میں اپنے شہزادوں کے انتظار میں اپنی جوانی کی دنوں کی گنتی کرکے دن اور راتوں کو کھسیٹ کر ماہ و سالوں میں تبدیل کررہی ہیں۔
انہوں نے کہاکہ سینکڑوں مائیں اپنی سینوں میں سینکڑوں درد و ہجر اور اذیت اپنے گمشدہ لخت جگروں کیلئے لیکر قبروں میں دفن ہوگئیں۔ وہ ہزاروں بہنیں جو سڑکوں پر مضطر اپنے بھائیوں کی زندگیوں کی جنگ لڑرہی ہیں۔ ہزاروں بلوچ جو دہائیوں سے زندانوں میں پابہ زنجیر زیست و مرگ کی کشکمش میں چیخ چیخ کر اپنی گناہوں کو تم کوپوچھ رہے ہیں۔
سمی نے کہاکہ ہزاروں پاشکستہ متاثرین جو آج بھی اپنے پیاروں کے لوٹنے کی امید میں کبھی زندہ ہوتے ہیں تو کبھی یہ سوچ کر کئی موت مرتے ہیں کہ نجانے یہ ریاست کب و کہاں اور کیسے ہمارے پیاروں کو مار کر لاوارثوں کی طرح انکو پھینک دیا جنہیں نہ اپنوں کا کندھا اور نہ ہی قبر نصیب ہوا۔
انہوں نے سرفراز بگٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ایک بہت ہی چھوٹا سا مسئلہ ہے، ہم دعا کرتے ہیں کہ یہ چھوٹا سا مسئلہ آپکے گھر میں بھی رونما ہو اور آپ سے چھوٹے سے مسئلے کی اذیت سے واقف ہوں۔
یاد رہے کہ گذشتہ دنوں پاکستان کے نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا تھا کہ لاپتہ افراد سے متعلق اختر مینگل کی لسٹ درست نہیں، لاپتہ افراد جیسے چھوٹے معاملے پر عدالت کا نگران وزیر اعظم کو بلانا مناسب عمل نہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں لاپتہ افراد کی تعداد خطے میں سب سے کم ہے، نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ ملک کے خلاف پراپیگنڈے کا ہتھکنڈا بن چکا ہے۔ جتنے لاپتہ افراد کی لسٹ دی جاتی رہی ہیں ان میں سے 78 فیصد کیسز حل ہو چکے ہیں۔ سردار اختر مینگل کی لاپتہ افراد سے متعلق یہ لسٹ درست نہیں ہے۔