بلوچ لاپتہ طالب علم سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ سمیت دیگر نوجوانوں کی جبری گمشدگیوں اور عدم بازیابی کے خلاف بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی تربت زون کی جانب سے عطاء شاد ڈگری کالج سے احتجاجی ریلی نکالی گئی جوکہ شہر سے ہوتے ہوئے شہید فدا احمد چوک تک پہنچی جہاں مظاہرہ کیا گیا۔
ریلی کے شرکاء نے ہاتھوں میں بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے مطالبات درج تھے جبکہ وہ نعرے لگا کر جبری گمشدگیوں کی مذمت اور لاپتہ افراد کا بازیابی کا مطالبہ کرتے رہیں۔
مظاہرہ سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ جبری گمشدگیاں بین الاقوامی قوانین اور ملکی آئین کے بھی برخلاف ہیں، مگر بلوچ نوجوانوں کے ساتھ یہ سلسلے آئے روز بڑھتا جا رہا ہے جس پر تمام ملکی ادارے خاموش ہیں۔
انہوں نے اس عمل کو بلوچ نسل کشی قرار دیتے ہوئے اسکی بھرپور مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ لاپتہ افراد کو منظرعام پر لاکر انہیں فری ٹرائل کا موقع فراہم کیا جائے جوکہ انکا آئینی حق ہے۔
بساک رہنماؤں نے کہاکہ بلوچستان میں جبری گمشدگیاں ایک سنگین انسانی بحران کی صورت اختیار کرچکا ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری و ساری ہے۔ اس تشویشناک انسانی المیے نے بلوچ معاشرے میں ایک ازیت ناک کیفیت اور غیریقنی ماحول پیدا کیا ہے۔ اس انسانی بحران کی وجہ سے یہاں ہر بلوچ فرد عدم تحفظ کا شکار ہے۔ جبری گمشدگیوں میں مسلسل اضافہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وفاق اور صوبے میں صاحب اختیار افراد اور ادارے اس انسانی المیے کو سنجیدگی سے لینے کو تیار نہیں ہیں۔ ایک طرف بلوچ طلباء کی جبری گمشدگیوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے تو دوسری جانب انتظامیہ کی جانب سے پرامن طلباء کا مختلف طریقوں سے ہراسمنٹ اور پروفائلنگ کی جارہی ہے جس میں تعلیمی اداروں کی انتظامیہ بھی شامل ہیں۔