تربت جعلی مقابلہ: ایک لاش کی شناخت پہلے سے جبری لاپتہ نوجوان کے طور پر ہوگئی

432

بلوچستان کے علاقے تربت میں پاکستانی فورسز سی ٹی ڈی کا ایک اور مقابلہ جعلی قرار پایا، جبری لاپتہ نوجوان کو گذشتہ رات قتل کیا گیا۔

کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ  نے جمعرات کی علی الصبح چار افراد کی لاشیں ٹیچنگ ہسپتال تربت پہنچاکر یہ دعویٰ کیا ہے کہ مذکورہ افراد کو بانک چڑھائی پسنی روڈ پر گذشتہ رات ایک مقابلے میں ہلاک کردیا گیا۔

علاقائی ذرائع کے مطابق مذکورہ افراد میں سے ایک کی شناخت بالاچ ولد مولابخش سکنہ آبسر تربت کے نام سے ہوئی ہے جن کے لواحقین نے لاش کی شناخت کی۔

ٹی بی پی کو تحقیق سے پتہ چلا کہ مذکورہ نوجوان کو 29 اکتوبر 2023 کی رات ایک بجے کے قریب تربت سے پاکستانی فورسز و خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے جبری طور پر لاپتہ کیا تھا۔

مذکورہ نوجوان کا تعلق انتہائی غریب خاندان سے ہے اور نوجوان وہ اسٹار پلس مارکیٹ تربت میں کشیدہ کاری کا کام کرکے اپنے گھر والوں کی کفالت کرتا تھا۔

ذرائع کے مطابق 21 نومبر کو جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے ان پر لگائے گئے الزامات کے تحت ان کی پیشی مقرر تھی اور اسے عدالت نے 10 روزہ جسمانی ریمانڈ دیا تھا، سنیئر وکیل جاڈین دشتی ایڈووکیٹ ان کے وکیل تھے۔

واضح رہے کہ بلوچستان میں سی ٹی ڈی کی جانب سے مختلف اوقات میں مقابلوں میں مسلح افراد کو مارنے کا دعویٰ کیا جاتا رہا ہے تاہم بعد ازاں تحقیق سے مذکورہ مقابلے جعلی قرار پائے ہیں جن میں بلوچ جبری لاپتہ افراد کو مارا کیا گیا۔

گذشتہ دنوں کیچ کے علاقے بالگتر میں ایک دھماکے میں تین افراد کے مارے جانے کی خبر سامنے آئی تاہم بعدازاں مذکورہ نوجوانوں کی شناخت پہلے سے جبری طور پر لاپتہ افراد عادل ولد عصا، شاہ جہان ولد عصا اور نبی داد ولد لیواری کے ناموں سے ہوئی۔

بلوچ نیشنل موومنٹ نے سانحہ بالگتر پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ایک ہی خاندان کے تین بچوں کو نیم زندہ حالت میں ایک گاڑی میں ڈال کر اسے بارودی دھماکے سے تباہ کردیا گیا جس سے ان بچوں کے چیتھڑے اڑ گئے۔ یہ بچے پاکستانی فوج کی زیرحراست تھے۔ گذشتہ سال (2022) اگست کو اس خاندان کے سات بچوں کو مختلف مقامات سے پاکستانی فورسز نے عینی شاہدین کے سامنے جبری لاپتہ کیا تھا۔ ایک بچہ تربت کے ایک معروف وکیل کے چیمبر سے گرفتار کیا گیا ، دو بچوں کو سول ہسپتال تربت کے احاطے سے حراست میں لیا گیا تھا۔

بلوچستان بار کونسل نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ان مسخ شدہ لاشوں میں سے ایک کیچ کے معروف وکیل کے چیمبر میں کام کرنے والا لڑکا بھی تھا جن کو گزشتہ ماہ وکیل کے چیمبر سے جبری لاپتہ کیا گیا تھا جن کے خلاف بلوچستان بار کونسل سمیت ملک بھر کے وکلاء نمائندوں نے مذمت کی اور جس کی جبری گمشدگی کے خلاف تھانہ تربت میں مقدمہ بھی درج تھا۔