تربت کے علاقے آپسر سے جبری لاپتہ کیے گئے دکان دار ظریف محمد بخش کے اہلخانہ نے جمعرات کو تربت پریس کلب سے ریلی نکال کر شھید فدا چوک پر احتجاج کیا، ریلی کی حمایت میں آپسر کے مختلف علاقوں سے جبری گمشدہ کیے گئے نوجوان یاسر نجام، شعیب بلوچ، حماد بلوچ، جہان زیب فضل، نعیم رحمت، سرفراز، عدیل اقبال اور دیگر کے لواحقین شامل تھیں۔
ریلی کا آغاز تربت پریس کلب سے کیا گیا جس کے شرکا نے بینر، پلے کارڈز پر لاپتہ کیے گئے نوجوانوں کی تصاویر اٹھا رکھے تھے، انہوں نے پریس کلب روڈ سے پولیس تھانہ روڈ اور وہاں سے نیشنل بینک تک مارچ کیا اور پھر مین روڈ سے نعرہ بازی کرتے ہوئے شھید فدا چوک پہنچ کر احتجاج کیا، ریلی میں نوجوانوں کے علاوہ خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل تھی۔
شھید فدا چوک پر احتجاجی مظاہرہ سے خطاب کرتے ہوئے گمشدہ ظریف محمد بخش، یاسر نجام، شعیب احمد، عدیل اقبال، جہان زیب، نعیم رحمت، حماد و دیگر کی فیملی ممبران کے علاوہ حق دو تحریک کے سابقہ رہنما یعقوب جوسکی اور وسیم سفر نے کہاکہ کسی نوجوان کو اغوا یا جبری طور پر گمشدہ کرکے مہینوں تک اپنے لوگوں سے دور رکھنا غیر قانونی اور آئین سے ماورا عمل ہے، اگر کوئی شخص مجرم ہے تو اسے قانون کے تحت سزا دی جائے اس کو غیر قانونی طریقے سے لاپتہ کرنا ریاست کے ساتھ وفاداری نہیں بلکہ خود ریاست اور اس کے قوانین کا مذاق اڑانا ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ایسے غیر قانونی عمل قانون کی بالادستی کے نام پر کیے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ اگر. بلوچ نوجوانوں نے قانون کے خلاف کوئی کام کیا تو انہیں ملک کی عدالتوں میں پیش کیا جائے اگر اغوا کرنے والوں کو ملک کے اداروں اور قوانین پر بھروسہ نہیں ہے تو انصاف کے تمام اداروں بشمول عدلیہ اور تھانہ وغیرہ بند کیے جائیں کیونکہ ملک کو اب ایسے اداروں کی ضرورت نہیں ہے، جبری گمشدگی کو قانون کا درجہ دیا جائے تاکہ ہم لوگ مطمئن رہیں کہ ہمارے بچے قانون کی سربلندی کے نام پر قانون کے طریقہ کار کے تحت اغوا کیے گئے ہیں۔
انہوں نے اعلان کیا کہ اگر 10 دنوں کے اندر آپسر اور تربت کے دیگر علاقوں سے جبری طور پر گمشدہ افراد منظرِ عام پر نہیں لائے گئے تو کمشنر اور ڈپٹی کمشنر آفس کے سامنے دھرنا دیا جائے گا اور اس وقت تک وہاں بیٹھے رہیں گے جب تک لاپتہ افراد بازیاب نہیں کیے جاتے ہیں۔
مظاہرہ کے دوران لاپتہ ظریف محمد بخش کی والدہ طبعیت خراب ہونے کے باعث بیہوش ہوگئیں جنہیں فوری ہسپتال پہنچایا گیا۔