یوم بلوچ شہداء کے موقع پر بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے کارکنان دنیا بھر میں مختلف پروگرامات کا انعقاد کرکے بلوچ شہداء کو خراج تحسین پیش کریں گے۔
بی این ایم کے بیرون وطن چیپٹرز اور اندرون وطن ھنکینان کے تحت ان پروگرامات میں بلوچ تحریک آزادی کے ایجنڈے اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کو اجاگر کیا جائے گا۔ جبکہ ’ بلوچ شہداء ‘ کی ویب سائٹ اور سوشل میڈیا صفحات پر آنلائن کمپئن چلایا جائے گا۔ بی این ایم کی طرف سے بلوچ شہداء کی ویب سائٹ، ایکس ، فیس بک ، انسٹاگرام اور ٹیلی گرام اکاؤنٹ سے یکم نومبر سے لے کر 13 نومبر تک روزانہ کی بنیاد پر معلومات شائع کیے جائیں گے۔
بی این ایم کے ترجمان نے کہا پاکستان نے بلوچ قومی تحریک کو کچلنے اور بلوچ قوم کو آزادی سے محروم کرنے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں بلوچوں کو قتل کیا ہے۔ یہ دن ہمیں ان شہداء کی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے جنھوں نے بلوچ قومی آزادی کے لیے اپنی جانیں نچھاور کیں۔
انھوں نے کہا 13 نومبر کا دن نا صرف ان شہداء کی قربانیوں کو اجاگر کرتا ہے جنھوں نے ’ مملکت بلوچستان ‘ کی آزادی کے لیے برطانوی حملہ آوروں کا مقابلہ کیا بلکہ یہ تاریخ کو بھی درست سمت پر رکھتا ہے۔ 13 نومبر 1839 کو انگریزوں نے آزاد ملک بلوچستان پر حملہ کیا اور بلوچستان کے بادشاہ ’ لال شہید محراب خان ‘ کو ساتھیوں سمیت شہید کردیا۔ یہ دن آغاز تھا جس کے بعد انگریز سامراج نے بلوچستان پر قبضہ کرکے اسے ٹکڑوں میں تقسیم کردیا۔ اگر 13 نومبر کا سانحہ نہیں ہوتا تو آج بلوچستان کی تاریخ مختلف ہوتی۔ اس سے قبل بلوچستان ایک ترقی پذیر ملک تھا جس کے انتظامی معاملات بتتدریج جدید شکل اختیار کر رہے تھے۔
بی این ایم کے ترجمان نے کہا کوئی قوم کسی دوسری قوم کو غلام بنا کر نہیں رکھ سکتی۔ اقوام کے درمیان رشتے بقائے باہمی، برابری اور ایک دوسرے کی آزادی کے احترام سے قائم ہوتے ہیں۔ نوآبادیاتی قوتیں صرف ریاستی طاقت کے ذریعے قوم کو غلام نہیں بناتیں بلکہ یہ نظام بالادست اور محکوم اقوام کے درمیان واضح لکیر کھینچ دیتا ہے۔ جس طرح انگریز سامراج کے دور میں انگریزوں نے مقامی لوگوں اور ان کی ثقافتوں کو اپنے سے کمتر سمجھا آج بھی اس نظام میں محکوم اقوام کے ساتھ تیسرے درجے کی شہری سا سلوک کیا جاتا ہے۔ہماری زبانیں اور ثقافت بھی بالادست اقوام کے لیے مزاحمت کار ہیں اس لیے وہ ان سے نفرت کرتے ہوئے انھیں مٹانے یا مسخ کرنے کے درپے ہیں۔
انھوں نے کہا پنجاب میں بلوچ طلباء کے ساتھ ریاستی اور عوامی سطح پر جو سلوک کیا جاتا ہے وہ بالادست اقوام کی نفسیات کا عکس ہے بلوچ قوم کی نجات کا واحد راستہ بلوچ قوم کی آزادی ہے۔ اس کے لیے قربانی ناگزیر ہے ہمیں شہداء کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تحریک آزادی کی کامیابی کے لیے استحکامت دکھانی ہوگی۔