بلوچ پارلیمانی جماعتیں اور عام سیاسی کارکن ۔ سلیم جالب بلوچ

300

بلوچ پارلیمانی جماعتیں اور عام سیاسی کارکن 

تحریر: سلیم جالب بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آج بلوچ سیاست یقینی طور پر بنیادی ہیروز عبدالعزیز کرُد، سردار عطاءاللہ خان مینگل، سردار خیر بخش مری، میر غوث بخش بزنجو، نواب اکبر خان بگٹی کے سیاسی افکار، طرز جدوجہد و انکے بعد کی تنظیمی ساخت کے زریعے مختلف شکلوں میں جاری ہے۔ جہاں انکے نظریات طرز جدوجہد پر الگ سے بحث و انکے بنائے گئے سیاسی اداروں و طرز فکر و آج انکے فکری و نظریاتی وارث کس حد تک کامیاب و ناکام قرار پائے ہیں۔ اس پر الگ سے تفصیلی بحث کی جاسکتی ہے لیکن آج گراونڈ پر سیاست جسے کسی حد تک پارلیمانی سیاست یا اس سے جڑی ہوئی اجزاء کی صورت میں بحث کیا جاسکتا ہے۔اسے یوتھ تھیوری یا نوجوانوں کی سوال کا نام دیا جارہا ہے۔ اسکی موجودہ دور میں ضرورت کیوں اور کیسے ہے؟ سب سے پہلے بنیادی سوال بی ایس او کے سرگرمیوں کا ہے۔ آیا ایک شخص بار بار تعلیمی اداروں میں داخل ہوکر ایک ہی لیول کے مختلف ڈگریوں میں محض خانہ پوری کی حد تک اسٹوڈنٹ رہ کر تنظیمی عہدوں پر مسلط رہ کر یوتھ و بی ایس او دونوں کے زمہ داریاں ادا کرسکتا ہے؟ کیا بی ایس او کے کارکن یا مرکزی کمیٹی کے رکن یا مرکزی عہدے دار کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ بیک وقت حقیقی اسٹوڈنٹ رہ کر اپنے سمسٹر، کوئز اور امتحانات وغیرہ میں اچھی کارکردگی کے ساتھ پورے بلوچستان کا دورہ کرکے تعلیمی ضروریات، تنظیمی سرکلنگ و سیاسی پروگرامز کو اٹینڈ بھی کرے، کیمپس سرکلنگ کے ساتھ فارغ التحصیل نوجوانوں کو بھی سرگرم رکھے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تنظیم اگر تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل نوجوانوں کو بی ایس او میں جگہ دے تو عام اسٹوڈنٹ کے برعکس تعلیمی اداروں سے باہر کے نوجوانوں کیے ضروریات و زمہ داریاں الگ ہیں تو بی ایس او کا کارکن تعلیمی اداروں سے باہر کی چیزیں سنبھال کر تعلیمی اداروں میں غیر متعلقہ ہوگا جبکہ ابھی اسٹوڈنٹ سیاست میں مرکزیت پر الگ بحث و اختیارات کو یونٹ سطح پر لیجانے سے تنظیم زیادہ فعال ہوگا۔ اگر عام نوجوان بی ایس او کا ممبر یا عہدے دار بنے تو بی ایس او کے حقیقی اسٹوڈنٹ کے لئے سیاست میں کیا گنجائش رہ جائے گی؟

دوسری بات یوتھ سوال بلوچ سیاست میں کیوں ضروری ہے؟ اگر ہم دیکھیں تو بلوچستان میں ظلم کا نشانہ سب سے زیادہ نوجوان ہی بنے ہیں، چاہے وہ مسنگ پرسن کی شکل میں ہو، بیروز گاری یا سیاسی فیصلوں میں عدم شراکت داری لیکن بلوچستان کے نوجوانوں کی ایک بڑی کھیپ اس وقت بی ایس او، بساک، بلوچ اسٹوڈنٹس کونسلز و دیگر جو سیاسی عمل کا حصہ نہیں رہے ہیں وہ تعلیمی اداروں سے فارغ ہوکر کن حالات کا شکار ہیں؟ یہ نوجوان بے اس حد تک بے بسی کا شکار ہیں کہ عام ایم پی اے، ایم این اے و حکمران و سیاسی عمل میں شامل اور کردار ادا کرنے والے منشیات فروشوں تک کے تصاویر شیئر کرکے نوکری لینے کے لئے دربدر یا سیاسی مایوسی کا شکار ہوکر صرف روزگار کی تگ و دو میں ہیں۔ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کیکئے نوجوان کو صرف اس وقت یاد کیا جاتا ہے جب وہ لاپتہ کردیا جائے یا کسی بھی زریعے سے وہ شہید کردیا جائے جبکہ عام زندگی میں سیاسی طور پر نوجوان کن حالات کا شکار ہے اس حوالے سے تاحال کوئی بحث موجود نہیں ہے۔

دوسری جانب گذشتہ چند سالوں کے بے درد پارلیمانی سیاست میں سیٹ و نمبر گیم کے بنیاد پر فیصلوں سے سیاست میں ہر اس شخص کیلئے گنجائش پیدا ہوگئی ہے جو ووٹ لے سکے یا خرید سکے۔ کیا عام حالات میں تنگدست نوجوان اس سرمایہ دار طبقے کا مقابلہ کرسکتا ہے؟ جب تک کوئی سیاسی جماعت پالیسی لیول پر نوجوانوں کو نمائندگی نہ دے اس پر تاحال دو رائے موجود ہے کہ سیاسی جماعت نوجوانوں کی الگ تنظیم کاری کی حوصلہ افزائی کرے یا اپنے پارٹیز میں یوتھ ونگ بنائے جیسا کہ دنیا بھر میں سیاسی جماعتوں کے یوتھ ونگ بنے ہوئے ہیں۔ پالیسی لیول پر نوجوانوں کو سینئر دوستوں کے ساتھ مرکزی کمیٹی و مرکزی کابینہ میں جگہ دیں تاکہ فیصلہ سازی میں اس کا رائے شامل ہو۔ کم از کم مرکزی کمیٹی کی 30 فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہو تاکہ پارٹیوں کو آئندہ قیادت بھی ملے اور سیکنڈ لیڈر شپ بھی پیدا ہو۔ آج بی این پی جیسی بڑی سیاسی جماعت سردار اختر جان مینگل کی بلوچستان میں موجود ہونے پر فعال ہوتی ہے لیکن ان کی عدم موجودگی میں کیا آج تک نوروز اسٹیڈیم میں کوئی جلسہ منعقد ہوسکا ہے؟ یقیناً جواب نفی میں ہے اور اسکا مطلب یہی ہے کہ پارٹیوں میں سیکنڈ لیڈرشپ ہی موجود نہیں ہے۔

اس بحث کا مقصد کسی فرد کو عہدہ دلانا نہیں ہے بلکہ حقیقی طور پر ان سنگین مسائل پر ایک بحث کا آغاز کرنا ہے تاکہ اس انتشار اور غیر یقینی صورتحال کے خاتمے کیلئے نوجوان اپنا کردار ادا کرسکیں۔ جسکے لئے قیادت کے ساتھ باقائدہ طریقہ کار موجود ہے کم از کم یوتھ نمائندگی میرٹ پر ہونا چاہیے۔ کسی کے رشتہ دار کے کوٹے پر نہیں اور نہ ہی بی ایس او کے سابق عہدے دار کے کوٹے پر اس پر مسئلہ آئینی ہوگا کہ کس عمر کے لوگ یوتھ نمائندگی کا اہل ہوں گے۔ تعلیمی کارکردگی کیا ہوگی اس کا فیصلہ کسی فرد کے لئے نہیں عام بلوچ نوجوان کے لئے ہونا چاہیے تاکہ عام بلوچ نوجوان کو پارٹیوں میں پالیسی لیول پر جگہ مل سکے اور پارٹیوں کے اداروں مکمل فعال کرنے میں اس رائے اور محنت شامل ہو۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔