بلوچ نوجوان سیاسی اداروں سے بے دخل کیوں؟ – پرویز بلوچ

221

بلوچ نوجوان سیاسی اداروں سے بے دخل کیوں؟

تحریر: پرویز بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جب بھی بلوچستان سے متعلق کسی اخبار میں کوئی خبرچھپ جائے یا کوئی بڑی شہ سرخی بن کر سامنے آ جائے تو اس میں بلوچستان کے مادی وسائل کے غلط استعمال کا ذکر ہی ملتاہے لیکن کبھی بھی کسی سرمایہ کار ،پالیسی ساز یا عالمی سطح پر سرگرم بڑے لابی نے بلوچستان کے سب سے قیمتی وسائل یعنی انسانی وسائل یا ہیومن ریسورس، میں سرمایہ کاری کے متعلق بات تک نہیں کی، حتی کہ بلوچستان میں موجود سیاسی جماعتیں کسی بلوچ نوجوان کے مرنے یا لاپتہ ہونے تک سیاسی نعرہ بازی کرتے ضرور دکھائی دیتی ہیں، لیکن جب تک یہی نوجوان امن کی بات کرتا، دفاتر میں روزگار کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے جسکا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ نتیجے کے طورپر یہی خوبصورت خیالات رکھنے والا انرجیٹک نوجوان سیاسی،سماجی و معاشی طور پر مایوسی کی علامت بن کر پھررہا ہوتاہے۔ کوئی پولیٹکل فورس اس نوجوان کے منتشر خیالات و داد رسی کرنے، سیاسی طور پرجماعتی اداروں میں اس نوجوان کو انگیج کرنے کے متعلق حکمت عملی وپلاننگ پہ نہیں کی جاتی، پارلیمانی سیاست کے بلند و بانگ اعلانات اور عوام سے ووٹ لینے کے لئے گھنٹوں طویل لیکچرز دینے والے طوطے پارلیمان میں پہنچنے کے بعد اسی نوجوان کو انٹرشپ کی یا اداروں سے واقف کرانے پر ایم پی اے کی پی ایس جیسے معمولی زمہ داری بھی نوجوان کو دینے کو تیار کیوں نہیں ہوتیں۔

کیا بلوچستان میں سیاست کے لئے لاشوں کی قطار یا مسنگ پرسنز کی لواحقین کی آہ و پکار ہی سیاسی جماعتوں کو متوجہ کرنے کا زریعہ بن چکا ہے؟ آج دن تک کسی سیاسی قوت نے ایک نوجوان کی شہید و لاپتہ تک ہی سفر یا محرکات پر کبھی کوئی سیمینار،پروگرام،ڈبیٹ یا اسمبلی فلور پر تقریر یا پھر ایک مذمتی قرارداد پیش کرکے وجوہات جاننے کی کوشش ہے نہیں،یہ پارلیمان جسے مراعاتی سیاست بہت بڑا نجات دہندہ اور زریعہ بلوچ حقوق تصور کرنے والے جماعتوں نے ایک قرارداد کی صورت میں اس مسئلے کے اسباب و انسداد کے متعلق کوئی پالیسی / حکمت عملی کے تحت ترتیب دی ہے یا گتھی کو سلجھانے کی کوش کی ہے

بلوچ گمشدہ نوجوانوں کی قسمت میں یا تو پیچھے رہ جانے والے لواحقین کی درپدری،ذہنی اذیت ومعاشرتی اجنبیت یا سیاسی مایوسی کیوں لکھی گئی ہے؟

جب بھی بلوچ قوم پرست سیاسی جماعتوں سے یہی سوالات پوچھے جاتے ہے تو جواب محض سرکار پر زمہ داری ڈال کر بری الزمہ ہوکر آنکھیں چرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

کیا بلوچ سیاست میں سب سے زیادہ متاثرکردار اداکرنے والے نوجوان/ ورکر لوئر مڈل کلاس سطح کے لوگ نہیں پائے گئے ہیں پھر سیاست سے ڈی بار کرنے کی کیا وجوہات ہیں، مشاہدہ ہے کہ اکثریت نوجوان مایوسی کی کیفیت میں سیاسی ساکھ و غداری و وفاداری کے سرٹیفکیٹوں سے بچنے کے لئے یا تو خاموش ہوگئے ہیں یا پھر پارلیمان طرز کی لولی پاپ سے کنارہ کش ہوکر مایوسی کی دلدل تک جاپہنچے ہیں۔

یہی وہ محرکات ہیں کہ بلوچ نوجوان تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل کے قوم پرست سیاست سے کنارہ کش ہوتے جارہے ہیں جسکی مثال ہی یہی ہے کہ اس وقت کسی بھی سیاسی جماعت میں نوجوان سیاسی کارکن کی تعداد فیصلہ سازی میں نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ مراعات میں پہلے سے مراعات یافتہ طبقہ ہی آگے اور بڑے فراخدلی سے خاندانی منصوبہ سازی میں مصروف عمل ہے

اگر یہی حالات رہے تو سیاسی جماعتوں کی زوال پزیری، مستقبل کی لیڈرشپ محض اسمگلنگ کی پیداوار، سرمایہ دار اور ٹھیکے داروں کی رحم و کرم پر ہی رہینگے، حقیقی سیاست محض تقاریر کی نذر ہوکر چند لوگوں کے مراعات کا زریعہ بنے گی اور وہ مخصوص قسم کے مقرر مڈل کلاس کارکن سے ایک بہت بڑے لابی یا بزنس مین کی شکل میں مفادات / مراعاتی سیاست کرتے دکھائی دینگے۔

سیاسی جماعتوں کو ان حالات سے بچنے کے لئے باقائدہ تنقید و تحقیق کے فورم اور لکھنے اور پڑھنے کی رجحان کو تقویت دیکر نوجوان سیاسی کارکن کو اسپیس دینا ہوگا، نوجوانوں کی میرٹ پر سیاسی اداروں میں نمائندگی کے عمل کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ موجودہ دور میں بلوچ نوجوان صرف شکار بننے و پارلیمانی طوطوں کے رسائی کا زریعہ بننے کے بجائے فیصلہ سازی میں فیصلوں کا حصہ بن سکیں اور گرائونڈ پالیٹکس میں مثبت و تعمیری کردار ادا کرسکیں وگرنہ بلوچ پولیٹکل فورسز محض مراعاتی سیاست کے میدان تصور کئے جائینگے.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔