بلوچ نسل کشی اور عوامی طاقت کا اظہار ۔ ظہیر بلوچ

361

بلوچ نسل کشی اور عوامی طاقت کا اظہار

تحریر: ظہیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

گذشتہ کچھ دنوں سے بلوچستان میں خاص کر مکران میں سی ٹی ڈی مست بے لگام گھوڑےکی طرح ہر چیز کو روند رہی ہے جسکی وجہ سے بلو چ نسل کشی میں تیزی کا رحجان دیکھنے کو مل رہا ہے، کچھ دن قبل پاکستان آرمی پر مشتمل فرضی نام سی ٹی ڈی کے ذریعے ایک کار بم دھماکے میں اڑاکر تین جبری گمشده فرزندوں کو شہید کرکے ایک حادثہ قرار دینے کی ناکام‌ کوشش کی اور اس واقعے کو ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا کہ چار گرفتار بلوچ فرزندوں کو سی ٹی ڈی نے شهید کرکے جعلی مقابلے کا نام دیا جو نه صرف تشویشناک هے بلکہ بلوچ نسل کشی میں تیزی کا رحجان ہے۔

بلوچ نسل کشی دو دهائیوں سے جاری ہے۔ جبری گمشدگی، مسخ شده لاشیں، اجتماعی قبریں، جعلی مقابلے یہاں تک کہ حالیہ واقعات میں جبری گمشده افراد کو بم دھماکے میں شہید کرکے نسل کشی کو ایک نیا رنگ دینے کی ناکام کوشش کی جس کا مقصد ایک خوف کی فضاء قائم کرکے بلوچ قوم کو مزاحمت سے دور رکھنا ہے۔

یہ حقیقت هے که سچ کو دبایا نہیں جاسکتا۔ سچ کسی نہ کسی شکل میں ابھر کر سامنے ہی آجاتا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان نے اپنے ظلم و بربریت سے بلوچستان میں خوف کی فضاء کو جنم دیا ہے اور اسی خوف اور ہماری خاموشی کا فائده اٹھا کر ریاست نسل کشی میں تیزی لارہی ہے اور مستقبل میں بلوچ نسل کشی مزید منصوبے کے تحت تیز اور مضبوط ہوگی ، ہر مقام پر بلوچوں کی جبری گمشدگی اور لاشوں کی بر آمدگی میں تیزی لائی جائے گی۔

بلوچ قوم سیاسی مزاحمت کریں یا مسلح مزاحمت، بلوچ کسی محکمے میں نوکری کریں یا پارلیمنٹ کی سیاست، ریاست پاکستان کے سامنے اسکی حیثیت صرف ایک غلام قوم کی ہے اور غلاموں کے مقدر کا فیصلہ مقتدره طاقتوں کے ہاتھوں میں ہی ہے. صرف مقدر ہی نہیں بلکہ اسکی زندگی اور موت کا فیصله بھی انهی آقاؤں کے ہاتھوں میں ہے۔ بس مزاحمت کرنے والوں اور مزاحمت سے دور رہنے والوں میں یہ فرق ہے که مزاحمت سے منسلک افراد اپنی زندگی اور موت کا فیصلہ خود کرتے ہیں جب کہ مزاحمت سے دور رہنے والے کو خبر ہونا چاہئے وہ بھی بے موت مرجاتے ہیں ۔

بلوچ قوم یہ جان لیں که اسکے پاس مزاحمت کے علاوه کوئی راسته نہیں، مزاحمت کے ذریعے ہی وه اپنی زندگی اور موت کا فیصلہ اپنے ہاتھوں میں لے سکتے ہیں اور بلوچ نسل کشی کے خلاف بند باندھ کر کھڑے ہوسکتے ہیں۔

سیاسی قوتوں کو چاہئیے که وه سیاسی حکمت عملی ترتیب دیکر نسل کشی کا راسته روکنے کی کوشش کریں اور عوام کو چاہئیے که وه سیاسی قوتوں کے شانہ بشانہ ره کر سیاسی و مزاحمتی جدوجہد کو مضبوط بنائیں تاکہ نسل کشی کو روکا جاسکے۔

بلوچستان کے تمام بلوچ اس نسل کشی کے خلاف یکجاء ہو کر موثر آواز اٹھائیں. نہ صرف تربت ،کراچی اور کوئٹہ بلکہ بلوچستان کے تمام شہروں اور قریہ قریہ احتجاجی مظاہرے، شٹر ڈاون ہڑتال، پہیہ جام ہڑتال اور سول نا فرمانی جیسی تحریکوں کے ذریعے اپنی عوامی طاقت کا اظهار کریں ’’ خاص کر سول نافرمائی جیسی تحریک کےلئے بلوچ آزادی پسند تما م پارٹیوں مسلح اور غیر مسلح قوتوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہواگا ؛؛اگر عوامی طاقت کے اظهار کے بجائے ہم نے خاموشی اختیار کی اور یونهی منتشر رہے تو لاشیں گرتی رہے گی اور ہماری منتشر احتجاجی پروگرامز نسل کشی روکنے کے بجائے مزید شدت کا باعث بنیں گی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔