بلوچ مسلح تنظیموں کا انضمام
ٹی بی پی اداریہ
بلوچستان میں آزادی کی جدوجہد بیس سال سے زائد عرصے سے جاری ہے اور کئی مسلح تنظیمیں پاکستان کے خلاف بلوچ قومی آزادی کے لئے برسرپیکار ہے ہیں۔ اِن دو دہائیوں میں بلوچ مسلح تنظیمیں کئی نشیب ؤ فراز سے گزرے ہیں، آپسی مسائل اور اندرونی چپقلشوں کے باجود بلوچستان میں اپنے مضبوط وجود کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
دوہزار اٹھارہ میں بلوچ لبریشن آرمی، بلوچستان لبریشن فرنٹ، بلوچ ریپبلیکن گارڈز اور بلوچ ریپبلیکن آرمی کے اتحاد بلوچ راجی آجوئی سنگر بننے کے بعد بلوچ مسلح تنظیموں کے قربت میں اضافہ ہوا اور حالیہ دنوں بی ایل اے کمانڈر بشیر زیب اور بی ایل ایف کمانڈر اللہ نظر نے دونوں تنظیموں کے انضمام کی جانب پیشرفت کا اظہار کیا ہے۔
حالیہ سالوں میں بلوچ مسلح تنظیموں خاص طور پر بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کے جنگی حکمت عملیوں میں تبدیلی آئی ہے اور انہوں نے پاکستان فوج پر مہلک حملے کئے ہیں جِن میں فوج کو بڑے پیمانے پر جانی نقصان سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ براس اتحاد کے تشکیل کے بعد مسلح تنظیموں کے منصوبہ بندی اور مہلک حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
بی ایل اے کے فدائی حملوں کے یونٹ مجید بریگیڈ نے حملوں کو وسعت دے کر پاکستان کے مرکزی شہر میں چین اور پاکستان کے سفارتی و معاشی مفادات پر حملے کئے ہیں جس سے چین کی بلوچستان میں سرمایہ کاری مشکلات کا شکار ہے۔ براس اور بی ایل ایف نے محفوظ سمجھے جانے والے کوسٹل ہائی وے پر پاکستان نیوی، کوسٹ گارڈ اور آرمی پر بڑے حملے کئے ہیں جن میں فوج کو وسیع پیمانے پر جانی نقصانات ہوئے ہیں۔
بلوچستان کے سب سے متحرک تنظیموں بلوچستان لبریشن فرنٹ اور بلوچ لبریشن آرمی کی انضمام کی جانب پیش رفت سے بلوچ مسلح تنظیم کی جنگی قوت میں اضافہ ہوگا اور مشترکہ جنگی وسائل اُن کی تنظیمی مضبوطی کا سبب بنے گا۔ اِن تنظیموں کے انضمام سے بلوچستان میں جنگ کی شدت میں اضافہ ہوگا جس سے غیر ملکی سرمایہ کاری کے منصوبوں پر حملے بڑھ سکتے ہیں اور دوسری طرف پاکستانی فوج کے مشکلات میں سخت اضافہ ہوسکتا ہے۔