پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں بلوچ طلباء کی جانب سے جبری گمشدگیوں کے خلاف ریلی نکالی گئی اور احتجاج ریکارڈ کیا گیا-
بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل اسلام آباد کی جانب سے بلوچستان سے جبری گمشدگیوں اور گذشتہ دو سالوں سے جبری گمشدگی کے شکار سہیل اور فصیح بلوچ کی عدم بازیابی کے خلاف ریلی نکالی گئی اور اسلام آباد نیشنل پریس کلب کے سامنے احتجاج ریکارڈ کیا گیا-
اس دؤران بلوچ طلباء کے ہمراہ دیگر سیاسی و انسان حقوق کے ارکان بھی شریک تھے جنہوں نے ہاتھوں میں لاپتہ افراد کے تصاویر اور پلے کارڈ اُٹھائے ہوئے تھے-
احتجاجی مظاہرہ سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا اسلام آباد میں ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز اور کرتاء دھرتا موجود ہیں اور پچھتر سالوں سے بلوچستان میں جاری ناانصافی اور بدامنی کو نہیں روکا جاسکا لیکن ہر بار کوئی آکر ضرور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ بلوچوں کے دکھوں کا مدعویٰ کرینگے-
طلباء کا کہنا تھا بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے واقعات تسلسل کیساتھ جاری ہے پہلے سیاسی کارکنان اور عام لوگوں کو غائب کیا گیا پھر طلباء کو اُٹھایا جانے لگا لیکن اب دن دھاڑے اور تعلیمی اداروں کے اندر سے بلوچوں کے پڑھے لکھے طبقہ کو لاپتہ کیا جارہا ہے جیسے سہیل اور فصیح تاحال لاپتہ ہیں جبکہ فرید بلوچ جسے لاہور سے گمشدہ کرنے کی کوشش کی گئی۔
احتجاج کے دؤران پولیس کی بھاری نفری نے مظاہرین کو گھیرے ہوئے تھے –
مظاہرین کا کہنا تھا سندھ اور بلوچستان میں ہمارے لوگ اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے مجبور ہوکر سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرتے ہیں تو انھیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے یا ایجنسیوں کے اہلکار آکر انکی ویڈیوز بناکر انھیں ہراساں کرتے ہیں اور اسلام آباد میں جب ہم اپنی فریاد لے آتے ہیں تو پولیس کے مسلح دستے ہم پر تعینات ہیں آخر بلوچ کے پاس بات کرنے کا کوئی راستہ ہے بھی یا وہ بھی لاپتہ کردیا گیا ہے-
طلباء کا مزید کہنا تھا کوئٹہ یونیورسٹی کے اندر سے سہیل اور فیصح بلوچ کو جبری لاپتہ ہونا اور تاحال انکا کوئی خبر نا دینے سے یہ مراد ہے کہ سیاسی اور عام زندگی کے طرح ریاست تعلیمی اداروں کے اندر بھی یہ خوف پیدا کرنا چاہتا ہے کہ یہاں کوئی بلوچ بارے نا بات کرسکتا ہے نا سوچ سکتا ہے-