بلوچستان کے پارلیمانی سیاست کے موسمی پرندے
ٹی بی پی اداریہ
انیس سو ستر میں عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت کے بعد بلوچستان کی پارلیمانی سیاست پاکستان کے اقتدار کی ایوانوں کے گرد گھوم رہی ہے اور پاکستان میں جو پارٹی برسراقتدار ہو، وہی جماعت بلوچستان میں حکومت بناتی ہے۔ بلوچستان کے فیصلے سیاست کے ایوانوں سے زیادہ پاکستان کے مقتدر قوتیں کرتے ہیں اور انہی کے اشاروں پر سیاست دان اپنے فیصلے لیتے ہیں۔
حالیہ دنوں پاکستان مسلم لیگ نون کے سربراہ میاں نواز شریف نے پاکستان کے سابق وزیر اعظم شہباز شریف اور اپنے پارٹی قائدین کے ساتھ بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ کا دورہ کیا، جہاں پاکستان پیپلز پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل اور نیشنل پارٹی کے مختلف رہنما پاکستان مسلم لیگ نون میں شامل ہوئے۔
پاکستان میں الیکشن تاریخ کے اعلان کے بعد بلوچستان میں پارلیمانی سیاست سے وابستہ سیاستدانوں کا دوسرے پارٹیوں میں اڑان کا سسلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ بلوچستان کے پارلیمانی سیاستدان مقتدر قوتوں کے اشاروں کے منتظر ہوتے ہیں اور اُن کی ہدایات پر ہر پانچ سال بعد پارٹیاں بدلتے رہتے ہیں۔
جو سیاستدان دو ہزار اٹھارہ کو مقتدر قوتوں کے کہنے پر بلوچستان میں مسلم لیگ نون حکومت کے خاتمے کا سبب بنے ، آج انہی کے اشارے پر نون لیگ کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں اور مسلم لیگ اقتدار حاصل کرنے کے لئے بخوشی انہیں قبول کررہا ہے۔
بلوچستان میں نیشنلسٹ جماعتوں کی سیاست کو ختم کرنے کے لئے پاکستان کے وفاقی جماعتوں کو مقتدر قوتوں کے آشیرباد سے مضبوط کیا گیا ہے لیکن نیشنلسٹ جماعتوں کی وفاقی پارٹیوں سے اتحاد اور اقتدار میں حصہ حاصل کرنے کی سیاست سے بلوچستان میں بلوچ قومی سیاست کو کمزور کیا ہے۔ اگر نیشنلسٹ جماعتوں نے وقت ؤ حالات کا ادراک کرکے بلوچ قومی سیاست کو مضبوط کرنے کی جانب قدم نہیں بڑھائے تو وہ وقت دور نہیں جب بلوچستان میں پارلیمانی سیاست کے دعویدار نیشنلسٹ پارٹیوں کی سیاست کے راستے بھی مسدود کردئیے جائیں گے۔