بلوچستان میں ناقص تعلیمی صورتحال ۔ اعجاز اسلم

265

بلوچستان میں ناقص تعلیمی صورتحال

تحریر: اعجاز اسلم 

دی بلوچستان پوسٹ

آج ہم اکیسویں صدی میں زندگی بسر کر رہے ہیں، جو جدید سائنسی تعلیم اور ترقی کا دور ہے جہاں تعلیم کو بہت بڑی اہمیت حاصل ہے۔ دور حاضر میں ان اقوام نے ترقی کے منازل کو طے کی ہیں جنہوں نے جدید سائنسی اور علمی دور کے تقاضوں کے مطابق تعلیم اور تربیت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ جدید مہارت سے لیس ہو کر ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کی ہیں۔

اگر بلوچستان کو تعلیم اور ترقی کے لحاظ سے دیگر ممالک تو اپنی جگہ پاکستان کے دیگر صوبوں سے موازنہ کیا جائے تو بلوچستان ان سے کافی پسماندہ ہے۔ قدرتی معدنیات اور سائل وساحل کے اعتبار سے بلوچستان پورے پاکستان کو چلا رہا ہے، حکمران ان سے کافی فوائد حاصل کرکے اپنی زاتی بینک بیلنس کو برابر کر رہے ہیں لیکن یہاں کے مقامی بلوچ انتہائی غربت اور پسماندگی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، جب بھی بلوچستان کا نام لیا جاتا ہے تو فوراََ بھوک، پیاس، غربت، بدامنی، پھٹے پرانے کپڑے، خیموں اور کچّے کے کمروں سے تعمیر کئے گئے اسکول کے مکان کے نیچے دھوپ و گرمی میں بیٹھے ہوئے تعلیم کے پیاسے بلوچ بچّے اور دیگر انتہائی اندوہناک مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ بلوچستان کے عوام آج اس جدید دور میں بھی ترقی کے ثمرات سے محروم ہے۔ بلوچستان اپنی قیمتی وسائل سے ملکی معیشت کے ایک بڑے حصّے کو سنبھالا ہوا ہے۔ جہاں سے بیش بہا قیمتی ذخائر کے علاوہ ’’سوئی‘‘ گیس جو پورے مُلک میں پہنچ کر پنجاب کے گھر گھر کے چولوں کو جلانے کے ساتھ ساتھ ملک کے تمام کارخانوں کو چلا رہی ہے، لیکن بدقسمتی سے ”سوئی“ جہاں گیس نکالی جا رہی ہے، وہاں کے باشندے آج بھی قدرتی گیس سے محروم ہیں اور وہ اپنے گھروں میں کھانا پکانے کیلئے لکڑی کے زریعے آگ جلاتے ہیں۔ بلوچستان کے اکا دکا چند شہروں کے علاوہ باقی پورے کے پورا بلوچستان میں گیس میسر نہیں۔ دیگر ترقیاتی کام تو اپنی جگہ بلوچستان کے لوگ تعلیم اور صحت کے ساتھ ساتھ دیگر تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ یہاں کے لوگ آج بھی غربت کی چکی میں پیس کر انتہائی پسماندگی کی زندگی گزار رہے ہیں، یہاں کے باسیوں کی حالات زندگی میں زرا برابر نہ کوئی بہتری آئی اور نہ ہی انہیں ترقی و خوشحالی نصیب ہوئی۔

بلوچستان میں محکمہ تعلیم مسائلستان بن چکا ہے۔ اسکولوں میں اساتذہ کی کمی کے ساتھ ساتھ بہت سے اسکول بند پڑے ہوئے ہیں، جدید سہولیات کے فقدان سے تعلیمی نظام تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔ اقوام کی ترقی کا دارو مدار تعلیم کے شعبے کو ترقی دے کر طلباء کے لئے بنیادی سہولیات کو ممکن بنانا ہے مگر بلوچستان کے اکثر سرکاری اسکولز تمام تر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔

بلوچستان میں سینکڑوں ایسے گھوسٹ سرکاری سکولز ہیں، جہاں ابھی تک کوئی بلڈنگ کی بنیاد نہیں رکھی ہے اور لاتعداد میں ایسے براہ نام کے اسکول ہیں جن میں نہ کوئی کلاس روم ہے اور نہ ہی بیٹھنے کو ڈیسک ہیں۔ بدقسمتی سے بلوچ قوم کے مستقبل کے معمار آپ کو ہر روز اپنے حقوق کے لئے روڈوں پر نظر آتے ہیں، انہیں کافی مشکلات کا سامنا ہے، تعلیمی اداروں میں ہاسٹلز اور رہائش کے مسائل سے لے کر لائیبریریز یا پھر داخلوں میں میرٹ کے قتل تک جیسے بدعنوانیاں اور اقرباء پروری کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔ یہاں کے نوجوانوں کو علمی دنیا سے دور رکھنے کیلئے مسائل رکاوٹیں کھڑی کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں پریکٹیکل ورک، لیبارٹری اکوپمنٹ سے محروم رکھا گیا ہے تاکہ وہ سائنسی، علمی اور عملی تجربات سے دور رہیں۔ اس گھمبیر صورتحال میں مجبوراً نوجوان نسل تعلیمی اداروں میں کم اور احتجاجی دھرنوں میں زیادہ نظر آتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں موجود لوگوں کے لیے سب سے بڑی ضرورت روزگار,صحت اور تعلیم کی ہوتی ہے. سب سے بڑھ کر تعلیم کا مسئلہ نہایت ہی سنجیدہ مسئلہ ہے، کیونکہ تاریخ میں جن اقوام اور معاشروں نے ترقی کی ہے ان میں تعلیم کا کردار سب سے بڑا ہے، اور دنیا میں اسطرح کے کئی مثالیں موجود ہیں۔

اس جدید سائنسی اور ترقیاتی دور میں باقی ملک نئی چیزیں دریافت کررہے ہیں، ٹیکنالوجی، مصنوعی زہانت اور دیگر اہم ایجادات سے لوگ استفادہ حاصل کر رہے ہیں لیکن ایک بلوچستان ہے جہاں جدید دور کے تعلیمی تقاضوں کے مطابق ایجوکیشنل انسٹیٹیوٹس میں بنيادی تعلیمی ضروریات اور سہولیات میسر نہیں، تعلیم اور شرحِ خواندگی کے لحاظ سے بلوچستان ملک کے تمام وحدتوں سے کافی پیچھے ہے۔ بلوچستان تعلیمی حوالے سے انتہائی پسماندہ ہے۔ یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خواندگی کی شرح 58 فیصد ہے۔ پنجاب میں صورت حال دیگر صوبوں کی نسبت بہتر ہے۔ اور بلوچستان میں 50 فیصد آبادی خواندہ ہے۔ جب کہ بلوچستان کی 87 فیصدخواتین پڑھنا لکھنا تک نہیں جانتیں ۔ لڑکیوں کی تعلیم کی بات کیا جائے تو شرح خواندگی مایوس کن حد تک پہنچ چکی ہے، جو صرف 13 فیصد ہے۔ بلوچستان میں گرلز اسکولوں کی تعداد بہت کم ہے۔

بلوچستان بھر کے دیہی علاقوں میں چار ہزار سے زائد براہ نام کے ایسے پرائمری اسکولز ہیں، جن کی کوئی عمارت ہی نہیں۔ تعلیم کی مایوس کن صورتِ حال کے سبب بلوچستان میں شرحِ خواندگی بہت کم ہے۔ 22ہزار پانچ سو دیہات میں سے 12 ہزار گاؤں تو ایسے ہیں، جہاں سرے سے کوئی اسکول ہی نہیں۔ بلوچستان میں دس ہزار کے قریب گھوسٹ اساتذہ ہیں جو تنخواہ تو اسکولوں کے نام پر لیتے ہیں لیکن انہوں نے اسکولوں کے احاطے میں کبھی بھی اپنے مبارک قدم نہیں رکھے ہیں۔ سینکڑوں مڈل سکولز تین سے چار استادوں پر ہی چل رہے ہیں اور کئی ایسے اسکولز ہیں جہاں صرف ایک استاد تعلیمی عمل کو یقینی بنانے میں سرگرداں ہیں۔ بلوچستان کے 27 لاکھ میں سے 19 لاکھ بچّے اسکول نہیں جاتے۔ ایسے والدین کی تعداد بہت ہی زیادہ ہیں جن کو یہ شعور تک نہیں ہے کہ وہ اپنی اولاد کو آنے والے زمانے کے اتار چڑھاؤ سے مقابلہ کرنے کے لیے تعلیم فراہم کریں۔ کچھ والدین غربت اور معاشی مسائل کے سبب بچپن ہی سے اپنے بچّوں کو چھوٹے موٹے کاموں پر لگا کر ان کے مستقبل کو داؤ پر لگا چکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان میں بسنے والے بچّوں اور جوانوں کی بڑی تعداد نہ صرف تعلیم کی سہولیات سے محروم ہیں بلکہ مجموعی طور پر پورا بلوچستان ترقی کے اس جدید دور میں بھی ترقی اور خوشحالی کے ثمرات سے یکسر محروم ہے۔اگر آج بلوچستان کے تقدیر بدلنا ہے تو ہر بلوچ نوجوان کو تعلیم کے میدان میں اپنا لوہا منوانا ہے، کیونکہ ترقی اور خوشحالی کا راز تعلیم کے اندر پوشیدہ ہے، اگر تعلیم کے میدان میں نوجوانوں نے جہد مسلسل کے ساتھ اپنی جدوجہد کو جاری رکھا تو وہ جلد دنیا کے دیگر اقوام کے برابر ترقی اور خوشحالی کے منازل کو طے کریں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔