تربت یونیورسٹی کے ماحول کہ ایک جیل خانہ کی طرح بنایا جارہا ہے جہاں اکیڈمک آزادی نام کی کوئی شے نہیں ہے۔ سیاست اور کتابوں پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ طالبات کو تعلیم چھوڑنے کیلئے مجبور کیا جارہا ہے۔
ان خیالات کا اظہار تربت یونیورسٹی کی طالبات نے دی بلوچستان پوسٹ کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
طالبات کا کہنا ہے کہ تربت یونیورسٹی آئے دن اپنے “کارناموں” کی وجہ سے میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہے؛ کبھی کتابوں کے اوپر پابندی، تو کبھی طلبہ کیساتھ بداخلاقی اور کبھی اپنی آمرانہ سوچ مسلط کرکے سیاست پر پابندی عائد کی جاتی ہے۔
طالبات نے مزید بتایا کہ تربت یونیورسٹی کا ہر ایک ملازم منتظم بنا ہوا ہے۔ ایک پرووسٹ جو طالبات کو یہ اجازت تک نہیں دیتا کہ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ باہر جائیں، چاہے وہ شخص کسی کا قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں ایسے لگتا ہے جیسے ہم کسی جیل میں بند ہیں کہ ہمیں اپنے گھر والوں کے ساتھ بھی جانے نہیں دیا جاتا ہے۔
طالبات کا کہنا ہے کہ تربت یونیورسٹی ایک تعلیمی ادارہ ہے یا فوجی چھاؤنی، کہ لڑکیوں کو ہاسٹل سے گھر جانے نہیں دیتے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ہم یہاں پر پڑھنے آتے ہیں، ہمارے معاشرے میں اب جاکر اس حد تک تھوڑی سی شعور آئی ہے کہ لڑکیاں بھی پڑھ سکتے ہیں لیکن تربت یونیورسٹی کا پرووسٹ آج بھی اُسی سوچ کا مالک ہے جو ریاستی پالیسیوں کی عکاسی کرتی ہے کہ کسی طرح بلوچ طالبات کو تنگ کیا جائے تاکہ وہ پڑھائی اور شعور سے دور رہیں۔
خیال رہے گذشتہ مہینے جامعہ تربت کے پرووسٹ کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں یونیورسٹی کے ہاسٹل میں مقیم طلباء کو سختی سے تاکید کی گئی کہ وہ کسی بھی قسم کی گیدرنگ منعقد نہیں کرسکتے ہیں۔
نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ ہاسٹل ضوابط کے مطابق طلباء سیاسی، سماجی، مذہبی یا کسی بھی قسم کی کوئی میٹنگ کا گیدرنگ نہیں کرسکتے، خلاف ورزی کی صورت میں ہاسٹل کی رہائش منسوخ ہوسکتی ہے۔ مزید برآں ایسے نشستوں کی تشہیر کرنے والوں کو ڈسپلنری کمیٹی کے سامنے پیش ہونا پڑ سکتا ہے۔
گذشتہ دنوں تربت یونیورسٹی کے طالبات نے میڈیا کو بتایا تھا کہ تربت یونیورسٹی میں پاکستانی عسکری اداروں کی موجودگی سے طلباء پریشان کا سامنا کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہاسٹل میں رہائش پذیر طلبا کو کبھی اسپورٹس اور کبھی دوسرے ایونٹ کے حوالے سے ایف سی کیمپ بلایا جاتا ہے۔
طلبہ نے مزید بتایا کہ دنیا بھر میں یونیورسٹی آزادی اور ایکڈمک ماحول کو طلبہ کے ذہنی بلوغت و نشوونماء کے لیے رکھا جاتا ہے تاکہ طلبا و طالبات اپنی صلاحیتوں کو آگے بروئے کار لا سکیں جبکہ تربت یونیورسٹی میں ذہنی دباؤ سے گذارا جاتا ہے۔
طلبہ نے ٹی بی پی کو بتایا کہ اگر فوج کے ایونٹ میں طلبا و طالبات جانے سے انکار کریں تو انکی پروفائلنگ کی جاتی ہے۔ بلوچستان کی جنگی ماحول میں کوئی مر جاتا ہے تو انکے لیے ہاسٹل سے طلبہ بلائے جاتے ہیں اور انہیں کینڈل لائٹ واک کرنے کو کہا جاتا ہے۔
علاوہ تربت یونیورسٹی کے مرکزی گیٹ پر بُک اسٹال قائم کرنے سے روکا گیا۔ سماجی رابطوں کی سائٹس پر ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ یونیورسٹی کے سیکورٹی گارڈز بُک اسٹال قائم کرنے والے طلباء کی ویڈیو بناکر ان کی پروفائلنگ کررہے ہیں۔
اسی طرح یونیورسٹی میں غیرنصابی کتابیں لیجانے پر طلباء سیکورٹی اہلکاروں کی جانب سے یہ کہہ کر روکا گیا کہ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے کتابیں لانے کی اجازت نہیں ہے۔
بلوچ طلباء جبری گمشدگیوں سے زیادہ متاثر ہے جبکہ ان واقعات کیخلاف احتجاج کرنے والے طلباء کو بھی پروفائلنگ و ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں پاکستانی عسکری اداروں کی ماجودگی کی رپورٹس اس سے قبل بھی سامنے آچکی ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی میں پاکستانی فوجی اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد تعینات ہے۔
بلوچستان یونیورسٹی میں طالب علموں کے جبری گمشدگیوں کے واقعات منظر عام پر آچکے ہیں۔ بلوچستان یونیورسٹی میں بھی طالب علموں کو تقاریب منعقد کرنے سے روکا گیا جبکہ مبینہ طور پر پاکستان فوج کے حمایت یافتہ این جی او کو تقاریب منعقد کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔
بلوچستان سے باہر اسلام آباد و پنجاب کے دیگر علاقوں میں بلوچ طالب علموں کے پروفائلنگ کے کیسز سامنے آئے ہیں۔ اس حوالے سے طلبہ نے احتجاج سمیت عدالت سے رجوع کیا ہے۔