اسلام آباد ہائی کورٹ: بلوچ طلبا کی عدم بازیابی پر 29 نومبر کو وزیر اعظم طلب، ’عوام کی اس سے زیادہ توہین کیا ہوگی کہ انھیں جبری طور پر گمشدہ کیا جائے‘
اسلام آباد ہائی کورٹ نے بلوچ طلبا کی گمشدگی کے بارے میں قائم کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران جبری لاپتہ بلوچ طلبا کی عدم بازیابی پر 29 نومبر کو وزیر اعظم کو طلب کر لیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی نے درخواست پر سماعت کے دوران وزیر داخلہ، سیکرٹری دفاع، سیکریٹری داخلہ کو بھی پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
اس دوران جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ بلوچ طلبا کمیشن کی سفارشات کے مطابق 55 لاپتہ بلوچ طلبا پیش کریں ورنہ وزیر اعظم پیش ہوں۔ سات روز کا وقت دیتا ہوں، عمل درآمد کریں۔‘
عدالت کا مزید کہنا تھا کہ ملک کے لوگوں کی اس سے زیادہ توہین کیا ہوگی کہ انھیں جبری طور پر گمشدہ کیا جا رہا ہے۔
عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’کمیشن کی رپورٹ پر عمل درآمد کرتے ہوئے ان طلبا کو بازیاب کروائیں۔ جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ ہم اسلام آباد میں بیٹھ کر بلوچستان کی بات کر رہے ہیں۔ یہ کام ایگزیکٹیو کا ہے لیکن یہ کام عدلیہ کر رہی ہے۔
ایڈشنل اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ وزیر اعظم کو طلب نہ کیا جائے لیکن عدالت نے ان کی استدعا منظور نہیں کی۔
عدالت کا کہنا تھا کہ ’اگر ہم یہ معاملہ حل نہیں کریں گے تو کیا اس معاملے کو اقوام متحدہ میں لے کر جائیں اور ملک کا مذاق اڑائیں۔
عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ سات روز میں کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کرتے ہوئے ان طلبا کو بازیاب کروائیں۔
خیال رہے کہ یہ کمیشن اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اور موجود سپریم کورٹ جج جسٹس اطہر من اللہ کے حکم پر قائم کیا گیا تھا۔