ہمیں بولنا پڑے گا ۔ کوہ زادی بلوچ

362

ہمیں بولنا پڑے گا 

تحریر: کوہ زادی بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

انسان ایک خود مختار تخلیق ہے، جب اسے شعور نصیب ہو تو آزادانہ اپنی ذات کے فیصلوں کا خود ذمہ دار ہوگا، چاہے وہ فیصلے سماجی اور ذاتی طور پہ اسکے حق میں ہوں یا اسکے خلاف لیکن وہ ان سب کا ذمہ دار خود ہوگا، لیکن اگر اسی انسان کو قید کیا جائے ،اس کے شعور کو ابھرنے کے بجائے لاشعوری طور پہ دبایا جائے یا “جی حضوری” کرنے والا مشین تصور یا بنایا جائے اور اُسے ذہنی و جسمانی غلامی کا شکار بنایا جائے تو کیا ہوگا؟

ایک انسان کو زیادہ سے زیادہ اپنے بچپن میں یا دس سال کی عمر تک اس کے ذہن کو کنٹرول کرکے اسے ذہنی غلام بنایا جاسکتا ہے لیکن جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا جاتا ہے اگر وہ انسان جسمانی طور پر طاقتور اور ذہنی طور پر کمزور رہے تو وہ عمر بھر اسی ذہنی غلامی میں جیتا رہے گا،لیکن اس کے برعکس وہ عمر کے کسی حصے میں یہ شعور پائے کہ یہ جو ذہنی غلامی ہے یہ اسکی قسمت نہیں بلکہ لاشعوری طور پہ اسے سونپا گیا ہے۔ یہی شعور اسے وہ طاقت عطا کرتی ہے کہ وہ اس ذہنی غلامی کو جھٹکائے گا اور شعور کی بنیاد پہ اس کیفیت کی اصل کو سمجھنے لگے گا۔

اگر ہم اپنے بلوچ معاشرے کی بات کریں تو ہمارے معاشرے میں عورت ایک “جی حضوری ” کرنے والی مشین تھی جسے ہر حال میں ذاتی معاملات کو سنبھالنے کے لئے جی حضوری کرنی پڑتی۔بعض جگہ ایک عورت اپنے والد سے مجبور ،کئیں دفعہ اپنی اولاد سے مجبور۔اور بہت سی بہنیں اپنے بھائیوں کے ہاتھوں بے بس و لاچار اور عزت کے نام پہ اتنا تنگ ہوجاتے ہیں کہ گلے میں پھانسی کا رسی ڈال کر اس خوبصورت زندگی کو خیر آباد کر دیتی ہے۔

لیکن ہم یہ سب بھول جاتے ہیں کہ اس عزت کے پیھچے ہم خود ہی اپنی اصل انسانی وقار جوہر اور عزت کھو چکے ہوتے ہیں۔اور ہم عزت کے اصل معنوں سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔

لیکن اگر ہم اپنی موجودہ سماجی زندگی کا جائزہ لیں تو ہمیں اپنے بلوچ معاشرے میں تعلیم فروغ پاتا ہوا نظر آئے گا ،تعلیم ہمارے اندر شعور بھر رہا ہے لیکن اس کے باوجود بھی ہمارے اندر منفی سوچیں ختم نہیں ہورہی ہیں۔

ہر بات کے دو پہلو ہوتے ہیں میں ایک عورت ہوکر صرف اپنے قوم کے مردوں کا یا پادرنہ نظام کو اسکا قصور وار نہیں ٹہراتا اس میں خود ہماری سوچ بھی شامل ہے ہم عورت ہوکرخود کو بس لاچار اور بے بس سمجھتے ہیں اور اپنے سوچ میں سب کچھ کو قبول کرکے اپنی زندگی کی جنگ لڑنے کی ہمت ہار جاتے ہیں۔

ہمیں اس مسئلے پہ ان دونوں پہلوں کو سمجھنا ہوگا تب ہم اصل مسئلے کو سمجھ اور اس حل کرنے کی جد و جہد کرسکتے ہیں۔

ہمارے قوم کے لوگوں کو اپنے عورتوں کو تعلیم دینی ہے اور اس بات کو اپنی ترجیحات میں رکھنا ہے لیکن تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ اس بات کو ذہین نشین کرلیں کہ تعلیم صرف ڈگریاں لینے کا نام نہئیں اور بس اپنی زندگی میں شادی کرکے اس پہ خوش رہنا زندگی نہیں۔

بلکہ تعلیم پاکر اصل شعور پانا ہے ،شعور پاکر اپنے ملک و قوم کئ راہنمائی اور خدمت کرنی ہے۔عمل سے علم پانا ہے اسی علم سے اور عمل کرنا ،عمل اور علم کا یہی تعلق یوں برقرار رہے کہ اس پروسس میں ہمارا عمل و علم روز بروز بڑھتا اور اسکا معیار اور مقام اونچا سے اونچا ہوتا رہے۔

ڈاکٹر ماہ رنگ،ڈاکٹر صبحیہ ،سمی دین اور باقی سیاسی کارکنوں کی طرح ہمارے بلوچ بہنیں بھی یہ سوچیں کہ آج ہم پڑھیں گئے تو صرف اپنے لئے نہیں بلکہ اپنے حصے کا حق بھی ادا کریں اور اپنے غلام قوم کے لئے شعور کی راہیں کھلیں گی۔

اگر ہم اپنے بلوچ معاشرے کے پچھلے فرسودہ روایات میں جھکڑی عورتوں کو دیکھیں تو ہمیں یہ احساس ہوگا کہ انہیں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں تھی۔اب ہمیں ہماری غلامی نے بولنا سیکھایا دیا ہے،ہمیں بولنا پڑھے گا۔ بانک کریمہ کی سیاسی جد و جہد نے ہمیں وہ سیاسی شعور عطا کئ ہے کہ اب ہم عمل اور علم کے ساتھ شعور کی نئی راہیں کھلتی رہیں اور بولتی رہیں اور تبدیلی کا راستہ ہموار کرتے رہیں اور انقلاب کی آواز بلند کریں۔

اگر ہماری ماوں کو تعلیم حاصل کرنے کی آزادی نہیں ملی تھی لیکن آج ہمیں ملی ہے۔ہم پڑھ لکھ کر شہید فدائی شاری،شہید فدائی سمیعہ جیسا کردار ادا کرسکتے ہیں۔جنہوں نے اپنی ذات کی ہر خواہش کی نفی کرکے بلوچ جد کو شعور اور انقلاب کے اعلی مقام عطا کئی ہے۔ ہم سب کو ویہی عمل ،علم اور شعور پاکر خود اپنی نفی کرکے ایک شعوری راہ اپنے جد کو عطا کرنا ہے۔

آج اگر ہم اپنے گھروں سے آزاد ہیں تعلیم حاصل کررہے تو ہمیں خود اپنی ذات سے یہ عہد کرنا ہے کہ ہم اپنے بے بس و لاچار بلوچ قوم و بلوچ سرزمین کو ریاستی سامراجی اور ظالم کے ظلم و دہشت سے آزاد کرائیں اور اپنی قوم کو اس مقام دلائیں گئے جو ایک آزاد قوم کا حق ہے۔اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم خود کو اور اپنی ذات کو خود کی خود احتسابی سے گزاریں گئے اور غیر جانبدار رہ کر بلوچ جد میں اپنے اصل کردار سے وفا کریں گئے اور اپنا اصل کرد ادا کریں گئے۔ہمارا ہر سوچ ،علم اور عمل سب اس قوم سے جڑی ہوئی ہیں ،آھوو ہم اپنی سوچ کی طاقت،علم کی قوت اور عمل کے کرنوں سے اپنے مادر وطن اور اس میں بسی لاچار قوم کی راہوں کو روشن کریں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔