کٹھن فیصلے
تحریر: میجر علی
دی بلوچستان پوسٹ
مختصراً ، استعمار کا پہلا مقصد سیاسی تسلط ہے ۔ جسے پانے کے لیے قابض سب سے پہلے آپ کی زبان، تہذیب ، تاریخ اور مذہب پر حملہ ور ہوتا ہے اور اُس کا دوسرا اور بنیادی مقصد مقبوضہ خطے یا ملک کے استحصال کو ممکن بنانا ہے۔
استعمار اپنی زبان مسلط کرکے آپ کو ایک نئی زبان سیکھنے اور بولنے پر مجبور کرتا ہے۔ جس کی مثال 21/3/1948 میں تب کے مشرقی پاکستان جو آج بنگلہ دیش ہے کے شہر ڈھاکا کے رمنہ ریس کورس میدان میں محمد علی جناح اپنے تقریر میں بنگالی بولنے والے ہجوم سے انگریزی میں خطاب کرتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ پاکستان کی قومی زبان صرف اُردو ہوگی اور کوئی زبان نہیں ۔
اس کا عملی مشق ہمیں بلوچستان میں یوں ملتا ہے کہ جب پاکستان نے بلوچستان پر قبضہ کیا تو اُردو سرکاری زبان ہونے کی بنیاد پر ہم پر مسلط ہو گئی ۔ ہمارے پڑھے لکھے بلوچ دفتروں سے اس لیے فارغ کئے گئے کہ اُن کو اُردو پڑھنا اور لکھنا نہیں آتا ( اِس سے پہلے سرکاری و دفتری دستاویزات فارسی اور انگریزی میں ہوا کرتے تھے) گویا کہ راتوں رات ایک پوری قوم انپڑھ ہو گئی ۔
قابض آپ کو قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ آپ کی تہذیب جاہلانہ ، قدامت پسند اور غیر ترقی پسند ہے چنانچہ یہ مستمر کے قابل نہیں۔ اس کا ایک جیتا جاگتا واقعہ یوں ہے کہ ایک انٹرویو میں محمد علی جناح بلوچستان کو اپنے اوپر بوجھ قرار دے کر اعلان کرتا ہے کہ بلوچستان کو جمہوری اداروں کی بجائے اُن کے زیر نگرانی سماجی، معاشی اور ترقیاتی منصوبے درکار ہیں۔ اسی پیروی پر گامزن پاکستانی نظامِ تعلیم میں آج تک پنجاب کے خاکہ نصاب میں بلوچوں کو وحشی ، قبائلی اور جاہل بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔
قابض آپ کی تاریخ کو بگاڑ کر روند کر مسخ کرتا ہے ۔ مثلاً اس کے زیر تسلط تعلیم میں چاکر اعظم کے بدلے وہ اپنے نام نہاد قائد اعظم کو پیش کرتا ہے۔ ملا فاضل ، رحم علی مری اور سید ظہور شاہ ہاشمی کی جگہ محمد اقبال اور میرزا غالب ۔ نصیر خان نوری کی تحریک کے بجائے محمد علی جناح کے قرارداد لاہور کو اروڑ مروڑ کر پڑھایا جاتا ہے ۔ بقول شہید پروفیسر صبا دشتیاری ، پاکستانی نظامِ تعلیم انسان کو ذہنی طور پر نامرد بنا دیتی ہے ۔
اسلام کا نام لے کر پاکستانی ریاست آپ کو ، مصنوعی دینی و مذہبی تنازعات میں مبتلا کرکے آپ کو بانٹھ کر آپس میں لڑاتا ہے ۔ حقیقی اسلام تو انسانوں کو غلامی سے نجات دلانے کی بات کرتا ہے۔ حریت، آزادی اور برابری کا پیغام دیتا ہے۔ ناانصافی ، ظلم ، جبر اور استبداد کی مخالفت کرنا سکھاتا ہے ۔ جیسے کہ خدا کی حکم سے موسی علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو ظالم فرعون کی چنگل سے آزاد کرایا تھا ۔ ابراھیم علیہ السلام جابر بادشاہ نمرود کے مقابل استقامت کا پہاڑ بن کر ڈٹ جاتے ہیں ۔
محمد ﷺ تو سراپا انقلاب تھے اور ظلم کے متعلق فرماتے ہیں کہ جہاں کہیں/جب بھی آپ ظلم ہوتا دیکھو تو سب سے پہلے اُسے ہاتھ سے روکھو ، ہاتھ سے روکھنے کی طاقت نہیں رکھتے تو زبان سے روکھ لو ، زبان سے بھی روکھنے کی ہمت نہیں تو کم از کم دل میں اُسے بُرا جانو ، اور یہ ایمان کی کمترین حد ہے ۔ ایمانداری کا درس دیتے ، بے ایمانی سے منع فرماتے ، نشے سے دُور رہنے کی تلقین کرتے ، عورتوں کے حقوق ، درخت و پودوں کے حقوق ، جانوروں کے حقوق ، حقوق العباد اور جنگ کے اداب سکھاتے تھے ۔ اُنھوں نے ہمیں جلا وطنی بھی سکھائی ہے ۔ آج کی یہ ہجری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب مکہ کی سرزمین اُن پر تنگ کی گئی اُن کی جان کو خطرہ لاحق ہوا ، اس عہد کے ظالم اور استکبار حضور اقدس ﷺ کے قتل کا منصوبہ بناتے ہیں ۔ تو آپ ﷺ مکہ سے ہجرت کرکے یثرب میں جلا وطنی اختیار کرتے ہیں ( یثرب جو آج مدینہ منورہ کہلاتا ہے ) ۔
جہاں نوآبادی قائم کی جاتی ہے وہاں کے مقامی باشندوں پر قابض اپنے قوانین ، معاشرت اور حکومت مسلط کرتی ہے ۔
قابض ایک کمزور حکومتی ڈھانچہ آپ پر لاد کر آپ کو ذہنی کشمکش میں اُلجھانے کی کوشش کرتا ہے ۔ اور ہمارے رہبر و رہنما اس میں اُلجھ بھی گئے ۔ اُسے آزما کر (70) ستّر کی دہائی میں رد بھی کر دیا ، یہ کہہ کر پاکستانی استحکام ( Establishment ) سے کنارہ کش ہوگئے کہ یہاں ہمارے لیے کچھ نہیں رکھا ہے ۔ یہاں ہمارے مسئلوں کا حل نہیں ۔
اُس کے بعد قابض نے اُن کی جگہ اپنے مُھرے بچا دیے اور کُچھ مراعات پسند بھی موجود تھے ۔ جو آج تک قابض ریاست کو سہولت فراہم کرنے میں سرگرم عمل ہیں ۔ اُن کے ذریعے فوج کشی کے اجازت نامے پر دستخط لیے جاتے ہیں۔ معدنیات کے سودا بازی کے لیے انھیں استعمال کیا جاتا ہے ۔ اُنھوں نے عوام کو بجلی ، پانی ، صحت و تعلیم ، جیسے بنیاری ضروریات کے مسائل پر اُلجھایا ہوا ہے ، جو ویسے بھی نا ہونے کے برابر ہے ۔ تاکہ عوام کو ان مسئلوں سے ہٹ کر سوچنے کا فرصت ہی نا ملے اور اسے یقینی بنانے کے لئے منشیات کو پورے خطے میں سر عام پھلایا ہوا ہے تاکہ سر اُٹھانے کی ذرّہ برابر گنجائش نہ رہے ۔ بلوچستان کے تمام منشیات فروش ، مذہبی شدت پسند اور کرائے کے قاتل آپ کو ان کے دھڑوں میں ملیں گے ۔
پانچویں شورش کی ابتداء میں تحریک کو نئے مشکلات کا سامنا رہا اور کٹھن فیصلے درکار ہوئے ۔ جیسے کہ جب مقامی مخبروں کو کیفر کردار اور اُن کو منطقی انجام تک پہنچانے کا عمل شروع ہوا تو اُس وقت وہ ایک کٹھن فیصلہ تھا ، تب اس سے بد نظمی اور اختلافات نے جنم لیا مگر بعد میں یہ ایک بہتریں فیصلہ ثابت ہوا اور اس کے مثبت نتائج ملے ۔
مجید بریگیڈ کو وجود میں لانا ایک کٹھن فیصلہ تھا ، چونکہ بلوچ تحریک میں یہ ایک نیا حربہ ہونے کی بدولت اسے قبولیت میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا . دشواری تب بھی پیش آئی جب بہنوں نے اپنے بھائیوں کے شانہ یہ شانہ اپنی قربانیوں کا حصہ ڈالنا شروع کیا ۔ دراصل یہ اُسی کٹھن فیصلے کی جدیدیت تھی ، یا آپ اسے ایک اور کٹھن فیصلہ بھی کہہ سکتے ہیں ۔ حقیقت میں ایسے ہی نئے فیصلوں کی ضرورت ہے تحریک کو ، جو اپنے ہر آنے والے منصوبوں میں جدیدیت لاتا رہے ۔
اگر ہم مجید بریگیڈ کی اوّل تا حالیاً آخری کاروائیوں کا ملاحظہ کریں تو اُس کا ہر اگلا کاروائی پچھلے کاروائی سے مختلف ، مضبوط ، ترقی یافتہ اور جدیدیت کا ثبوت دیتا ہے ۔ جس نے دشمن کا ہوش اُڑا کر اُسے ہواس باختہ کیا ہوا ہے ۔ اُس کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں ۔ اُس کی دل میں ایک ڈر اور خوف گھر کر چکا ہے ۔
بلکل ایسا ہی ڈر اور خوف ہمیں ان نام نہاد قوم پرستوں کے دلوں میں بٹھانا ہے یہ قطعاً ہمارے نمائندے نہیں بلکہ ہمارے تحریک کے سامنے رکاوٹیں ہیں۔ اور انھیں راستے سے ہٹانا ہے۔ تحریک کو فیصلہ کُن بنانے کے لئے ہمیں کٹھن فیصلے لینے ہونگے ۔ یہ بلوچ کی پوشاک میں قابض فوج کے ترجمان اور سیاسی وِنگ کا کام کر رہے ہیں۔ ان میں اور FWO میں کوئی فرق نہیں بلکہ یہ MI اور ISI سے زیادہ خطرناک ہیں ۔ اب ہمیں آستین کے سانپ کا سر کُچلنا ہے ۔ یہ بلوچ کا نام استعمال کر کے اپنا سیاست چمکاتے ہیں اور قوم کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں۔ پس ہم اپنے کالے بھیڑوں کو ، میر جعفر اور میر صادق کو پہچانتے ہیں اُن سے ویسے ہی نمٹنا ہے جیسے قابض فوج ، بشمول اُسکے تمام ادارے ۔ وہ جلد از جلد پاکستانی استحکام و عملہ سے علیحدگی اختیار کر کے اپنا قبلہ درست کریں ، قوم سے اپنی وفا ثابت کریں ۔ اور اپنی جان بچا لیں ۔ یا اِسی طرح دشمن سے عِہدِ وفا برقرار رکھ کر قوم دشمنی کی وضاحت کرتے رہیں اور مرنے کے لیے تیار رہیں ۔
جب آپ کہتے ہیں بلوچستان کے مسئلے کا حل فقط آزادی ہے تو سب سے پہلے آپ خود ذہنی طور پر آزاد ہو جائیں ، آزادی سے سوچھنا شروع کریں ، اپنے فیصلے آزادی سے لینے کے قابل بنیں ۔ آپ کے فیصلے آپ کے ہونے چاہئیں آزادی خود تمہارے قدم چھومے گی ۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔