بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی چیرمین چنگیز بلوچ نے کوہلو پریس کلب میں مرکزی کابینہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا بلوچستان کے موجودہ صورتحال ظلم و زیادتی کی ایک بھیانک ترین مثال ہے۔ جہاں آئے روز ظلم و زیادتیوں کی نئی مثالیں قائم کیئے جارہے ہیں۔ بلوچ سماج مجموعی طور پر سیاسی و معاشی قتل عام اور ملکی و بین القوامی سامراجی طاقتوں کی جانب سے مسلط کردہ جنگوں کا اکھاڑا بنایا گیا ہے۔ بلوچ عورتوں اور طلبہ کی جبری گمشدگیوں میں اضافہ، تعلیم، صحت، روزگار، تحفظ جیسی بنیادی ضروریات زندگی سے عوام کو محروم رکھنا انہی سامراجی پالیسیوں کا تسلسل ہے اور یہ تمام مظالم دنیا بھر کے دیگر محکوم اقوام کی حالتوں کی بھی عکاسی ہے۔
انہوں نے کہاکہ مجموعی طور پر عوام نہ صرف سیاسی و معاشی طور پر تباہی کے دہانے پر ہے بلکہ ملکی و بین الاقوامی طاقتوں کی جانب سے مسلط کردہ بلواسطہ جنگی حالات میں دھکیل دیئے گئے ہیں اور عوام ہر لمحہ زندگی اور موت کے درمیان کشمکش میں مبتلا ہیں۔
چیئرمین چنگیز نے کہا دنیا بھر میں آج قومی غلامی اور طبقاتی جبر کے خلاف تحریکیں ابھر رہی ہیں جو آنے والے وقتوں میں انقلابات کو جنم دے گی اور ان کے اثرات دنیا کے ہر حصے کو متاثر کریں گی۔ ایسے میں بلوچ عوام بھی مسلسل اپنے اظہار کو آگے بڑھ رہی ہے اور گوادر حق دو جیسی تحریکیں ہر حصے میں پنپ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کوہلو بلوچ مزاحمت کا استعارہ ہے جس کی وجہ سے جبر و استحصال کا بھی مرکزی نقطہ رہا ہے۔ حکومتی پراجیکٹس مزید استحصال کیلئے راہ ہموار کرتے ہیں، اور عوام کو کھوکلے دعووں کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔
کوہلو کی عوام جو دہائیوں سے بدترین جبر کا شکار رہی ہے، اکیسویں صدی میں بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہے، ہسپتال کی بلڈنگ ہے جہاں کوئی ڈاکٹر موجود نہیں اور اسکول اور کالجز کے بڑے بورڈز ہیں مگر جہاں تعلیم فقط نام کی ہے۔ گرلز کالج کے نام پر اربوں روپے لوٹے گئے لیکن آج بھی ایک کھوکلی عمارت کے علاوہ کچھ بھی نہیں دیا گیا۔ اس پر ظلم یہ کہ محدود تعلیمی انفراسٹرکچر کو بھی سیاسی مقاصد کیلیے استعمال کیا جاتا ہے، سکولز کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلئے بیٹھکوں میں تبدیل کردیا گیا ہے اور کوہلو کی واحد پبلک لائبریری کو ضلعی چیئرمین کا دفتر بنا دینا مقتدرہ قوتوں کیلئے شرمندگی کا مقام ہے۔ پچھلے پانچ سالہ حکومتی دور میں جہاں وزیر تعلیم کا تعلق بھی کوہلو سے رہا ہے وہاں کی تعلیمی زبوحالی باعثِ افسوس ہے۔
انہوں نے مزید کہا ماڑی گیس پراجیکٹ بلوچ دھرتی کی بے دریغ لوٹ مار کا ایک نیا طریقہ ہے جو بلین ڈالرز کے وسائل لوٹ کر لے جائے گی اور بدلے میں عام عوام اس کے ثمرات سے محروم ہی رہے گی۔ ترقی کے کھوکلے دعوؤں کے پیچھے یہ پراجیکٹس استحصال میں نیا اضافہ ہے جو پنجاب کی خوشحالی اور ہماری زندگیوں میں مزید گراوٹ کا باعث بنے گی۔ ان پراجیکٹس کے ساتھ تشدد کی ایک نئی لہر بھی ہمارے علاقوں کی طرف آرہی ہے جو آنے والے وقتوں میں کئی مسائل کا باعث بنے گی۔ بلوچستان میں دہائیوں سے جاری استحصالی پراجیکٹس نے نہ صرف ہمارے وسائل کا بے دریغ استحصال کیا ہے وہی ہماری غلامی کو مذید تقویت بھی بخشی ہے۔ دہائیوں سے بلوچستان سے گیس اور دیگر معدنیات نکالے گئے لیکن کہیں ایک ڈسپنسری تک ان پراجیکٹس کے توسط سے عام عوام تک نہیں پہنچائی گئی، بلکہ ابھی تک سوئی کی قریب ترین آبادیاں بھی گیس کی سہولت سے فیض یاب نہیں ہوسکی اور انڈین بارڈر کے ساتھ کی پنجابی آبادیاں گیس سے دنیا کے سستے ترین ریٹس پر استفادہ حاصل کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوہلو میں زبان بندی اپنی انتہاوں کو پہنچ رہی ہے، ایک طرف حکومتی دھونس و دھمکیاں ہیں تو دوسری طرف وڈیرہ شاہی کی بدمعاشی ہے جو ظلم و زیادتیوں کو پردہ فراہم کرتی ہے۔ ایسے میں عام عوام کی آواز اور امنگوں کا اظہار و نمائندگی ناممکن ہوچکی ہے۔
چنگیز بلوچ نے کہا اس کے ساتھ ہی اس پلیٹ فارم کے توسط سے ہم پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم فرید بلوچ کی جبری گمشدگی و گرفتاری کی بھی شدید مذمت کرتے ہیں، ہماری دھرتی کے مسلسل استحصال کے باوجود ہمیں تعلیم حاصل کرنے تک کا حق حاصل نہیں اور بلوچ نوجوان نہ تعلیمی اداروں میں محفوظ ہے اور نہ ہی اپنے گھروں میں۔
انہوں نے کہا کہ آخر میں ہم مقتدرہ قوتوں پر یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ کوہلو میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرکے فوری طور پر ڈگری کالج سمیت ہائی سکول کےمسائل حل کیے جائیں اور گرلز ڈگری کالج کو بحال کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی لائبریری کو ضلعی انتظامیہ کے قبضے سے چھڑا کر عام عوام کے لیے کھول دیا جائے۔ بصورت دیگر ہم بھرپور عوامی تحریک نکالنے پر مجبور ہوں گے۔
پریس کانفرنس میں چیئرمین چنگیز بلوچ کے علاوہ سینئر وائس چیئرمین جیئند بلوچ، سیکریٹری جنرل اورنگزیب بلوچ، جوائنٹ سیکریٹری شیرباز بلوچ، مرکزی کمیٹی ارکان نصیر بلوچ و نظر بلوچ سمیت کوہلو زون کے ارکان شریک تھے۔