کامریڈ سدائیں گڈ ۔ محمد خان داؤد

231

کامریڈ سدائیں گڈ

تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ

ایک تحریر جو مجھ پر قرض ہے۔جو میں لکھنا چاہتا ہوں۔اس شخص پر جس نے بس کتابیں نہیں پڑھیں۔پر وہ کتابوں کی گلیوں میں اتر گیا۔وہ دل سے دانشور اور عمل سے کامریڈ تھا۔کامریڈ اور عالم کبھی آپس میں مل کر ایک نہیں ہوئے۔اگر وہ ایک ہو جاتے تو مرشد فیض والی بات پو ری ہو جاتی۔”کچھ عشق کیا،کچھ کام کیا پھر دونوں کو ادھورا چھوڑ دیا“۔اس نے کام بھی پورا کیا اور عشق بھی پورا کیا۔وہ چاند کی طرح طلوع ہوا۔پر میں یہ کبھی نہیں لکھوں گا کہ”وہ سورج کی طرح غروب ہوگیا!“
نہیں سورج طلوع بھی ہوتا ہے
وہ جدو جہد کا سورج تھا اور اب بھی طلوع ہے
بس اپنی گردنیں موڑ کر پیچھے دیکھو اور اس تمازت کو محسوس کرو جو اس کے ہونے سے ہو تی تھی اور نہ ہونے کہ بعد بھی ہے!کیا علم مر جاتا ہے؟کیا دانش کو مٹی کھا جاتی ہے؟کیا ورق ہواؤں کی نظر ہو تے ہیں؟کیا نظریات دفن ہو تے ہیں؟کیا سوچ کے جنازے پڑھے جا تے ہیں؟کیا عالمانہ مباحث کو غسل دیا جاتا ہے؟کیا عالمانہ سوچ پر بند کمروں میں ماتم کیا جاتا ہے؟بیٹیاں باباؤں کے لیے تو رو سکتی ہیں پر بیٹیاں ان تھک جدو جہد کے چلے جانے پر نہیں رو تیں۔بیٹے بوڑھے باباؤں کے وجودوں کو تو مٹی میں دفناآتے ہیں پر دانش کو کس قبر میں دفن کرو گے؟بھائی سے بھائی کا پروسہ تو کیا جاتا ہے۔پر ایک عالم،عاشق۔استاد کا پروسہ کس سے کیا جائے؟ایسے انسانوں کا پروسہ بس دھرتی سے کیا جاتا ہے۔پر دھرتی اس بات کو نہیں مانتی کہ وہ چلا گیا ہے۔دھرتی کا یہ واعدہ ہے کہ
“عاشق اور شہید لوٹ آتے ہیں!“
جس کے پیر سسئی کی ماند گھر کے در پر رکے ہی نہیں کیا وہ شہید نہیں، وہ سیاست،جدو جہد،عقل علم کا شہید ہے کیوں کہ اس کا ٹائم اپنا بھی اپنا نہ تھا۔اس نے کبھی اپنی گود میں بچے نہیں کھلائے۔اس کے ہاتھ میں یسوع کی ماند کتاب اور دوسرے ہاتھ میں موسیٰ کی ماند لاٹھی تھی جس لاٹھی سے وہ اپنی قوم کو ہانکا کرتا تھا،وہ مبلغ تھا۔اس نے بہت کچھ کہا،اتنا کچھ کہ اگر کوئی تحریر میں لاتا تو کتابیں بھر جاتیں اور وہ آگے بھی بہت کچھ کہنا چاہتا تھا۔وہ طلوع ہو تے سورج کے ساتھ کچھ کہنا چاہتا تھا۔وہ غروب ہو تے سورج کے ساتھ کچھ کہنا چاہتا تھا۔وہ شام کو کچھ اور کہنا چاہتا تھا اور صبح کو کچھ اور کہنا چاہتا تھا کیوں کہ وہ دل بھر کر باتیں لایا تھا۔اور یہ اس پر فرض ہوچکا تھا کہ وہ جو کچھ جانتا ہے،اپنی قوم کو بتا دے،تو کیا اس نے لیا ری کی گلیوں میں ایسی صدائیں نہیں لگائیں
”درد کے سب راستے دل کو جا تے ہیں!“
اس نے دل اور درد کے راستے کو ایک کر دیا تھا۔اگر ایسا نہ ہوتا تو آج پورا لیاری اور اس کے باسی اداس کیوں ہیں؟
”ہر چیز کو ہر چیز سے نسبت ہے غالب
مر گیا جو مجنوں،تو جنگل اداس ہے!“
پر وہ مجنوں نہیں تھا۔وہ شانتی نکیتین لیاری کی گلیوں کا ٹیگور تھا۔شاعر بھی اور درویش بھی۔دانا بھی اور دیوانہ بھی!
وہ لیاری ایتھین کی گلیوں کا آخری رہ جانے والا عالم تھا جسے یہ معاشرہ جان ہی نہیں پایا کہ وہ کیا تھا۔وہ کچھ بھی تھا پر اب اس کے نہ ہونے سے پورا سماں سوگ آلود ہے!
وہ سورج کی طرح طلوع ہوتا،اور پورے چاند کی طرح لیا ری کی گلیوں میں ٹھہرا رہتا
اسے کس کا انتظار تھا؟شاید انقلاب کا،کامریڈوں کو اور کس چیز کا انتظار ہوتا ہے؟!دنیا کے تمام کامریڈوں کو بس اس بات کا انتظار ہوتا ہے جس بات کا اظہار امداد حسنی نے اپنی اس مختصر نظم میں کیا تھا کہ
”ہمیں کیا چاہیے؟
بس بیماروں کو دوا
عورتوں کو پو ری روٹی
بوڑھوں کو صاف پانی
اور بچوں کو دودھ
اور ہمیں کیا چاہیے؟“
وہ کوئی نیا نیو ورلڈ آڈر نہیں لایا تھا،اسے بھی بس یہی کچھ چاہیے تھا جس میں پو ری روٹی،صاف پانی،دوا اور بچوں کو دودھ ملے۔اس بات کو لیکر وہ لیا ری کی گلیوں میں سورج کی ماند طلوع ہوتا اور چاند کی طرح ٹھہر جاتا۔وہ ان گلیوں میں کیا کچھ نہ دیکھتا۔اور کیا کچھ نہ جھیلتا؟کیوں کہ وہ اندر سے ماں تھا۔ایسی ماں جس کی ممتا تسکین چاہتی ہے۔جب ماں بھوکے بچے دیکھی گی تو کیا وہ سورج کی طرح غروب ہو جائے گی؟نہیں وہ چاند کی طرح اداس اور اکیلے آکاش میں ٹھہری رہے گی۔وہ بھی بھوکے بچے دیکھ کر نہیں معلوم آکاش میں چاند کی طرح ٹھہر جاتا تھا یا لیا ری کی گلیوں میں مصلوب ہوجاتا تھا۔وہ لیا ری کی گلیوں میں مصلوب ہوجایا کرتا تھا کیوں کہ ماں اپنی ممتا کی تسکین چاہتی ہے۔اور اس کی تو تمام شامیں بھوکے بچوں کے ساتھ بسر ہو تیں۔اور تمام صبحیں بھوکے بچوں کے ساتھ طلوع ہو تیں۔تو وہ ان گلیوں کو چھوڑ کر سورج کے ساتھ کیسے غروب ہو سکتا تھا؟
پر اس دن چاند گلیوں میں رہ گیا اور وہ سورج کے ساتھ طلوع نہیں ہوا!
وہ خیال بن گیا۔ہاں میں خیال کہہ رہا ہوں ”خام نہیں!“خیال
ایسا خیال جس خیال کے لیے مرشد سچل نے کہا تھا کہ
”میں تے کوئی خیال ہاں
ملساں نال خیال دے!“
وہ خیال بن کر ہمارے خیالوں میں شامل ہوگیا ہے۔اب جب جب ہم دنیا میں بیدار ہو تے رہیں گے وہ ہما رے ساتھ بیدار ہوتا رہے گا،نئے ولولے کے ساتھ،نئے جذبے کے ساتھ،نئی اُمید کے ساتھ
دفن تو جسم ہوتا ہے۔دل نہیں!
اس کا دل تو ہم میں دھڑک رہا ہے
بس زرا اپنے دل کو ٹٹولو
ایک تحریر جو مجھ پر قرض ہے۔میں لکھوں گا اس شخص پر جو باکمال تھا،کتابوں میں بسی خوشبوؤں کی طرح
سندھی ادب میں کہیں بھی الوداع کا الفاظ نہیں۔سندھ میں دانشوروں کو الوداع نہیں کہتے
پر سندھ میں شعور بھرے دماغوں کو استادوں کو،دانشوروں کو بس یہ کہتے ہیں
”سدائیں گڈ!“
معنی”پھر ملیں گے“
پر یہ سوال تو بنتا ہے کب؟
جب گلابوں پر نئے سُرخ پھول کھلیں گے
جوان پساتوں میں دودھ اترے گا
اور جوان جسموں کے پسینوں میں محبت کی خوشبو ہوگی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔