چین میں بلوچی ادب اور بلوچستان میں اضطرابی صورتحال – جعفر قمبرانی

562

چین میں بلوچی ادب اور بلوچستان میں اضطرابی صورتحال

تحریر: جعفر قمبرانی

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچی و براھوئی بلوچستان کے دو بڑے ایسی زبانیں ہیں جن کے ساتھ بلوچ قوم کو بڑی حد تک محبت اور لگاؤ ہے تاہم ان دونوں زبانوں میں کہیں نہ کہیں کوئی ایسی کمی کا احساس ضرور ہوتا ہے کہ ان کی ادب، جدت اور فروغ کیلئے اس طرح کام نہیں کیا گیا جس طرح کرنی چاہیے تھی۔ شاید کام کرنے والے چند ہی گنے چنے افراد تھے جبکہ کام کو سرہانے اور آگے بڑھانے والے لوگ، حالات، ذرائع اور وسائل نا ہونے کے برابر۔ بہر حال کچھ ہے جسے دنیا کے دوسرے زبانوں کے برابر لانے اور پایہ تکمیل تک پہنچانے کی اشد ضرورت ہے۔

تاہم یہ ہماری خوش بختی ہے کہ اس ترقی پذیر دور میں وقت کے ساتھ ساتھ اس خطے میں بھی چند چیزیں تیزی سے بدل رہی ہیں جن میں بلوچی ادب ثقافت اور زبان (براھوئی اور بلوچی ) بھی شامل ییں۔
گزشتہ دنوں چین میں براھوئی اور بلوچی زبان سیکھنے اور مختلف (تعداد نامعلوم) اداروں میں بلوچستان کے دونوں بڑے زبانوں کو فروغ دینے اور چینی طلبہ کو بلوچی و براھوائی سکھائے جانے کی خبریں گردش کرتے دیکھے گئے۔ البتہ بلوچی زبان سیکھنے والوں کی تعداد براھوئی سیکھنے والوں کی نسبت زیادہ بتائی جاتی ہے۔

اس خبر کے پھیلتے کے بلوچی و براھوئی ادباء و شعراء اور ادبی ذوق رکھنے والوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ ہماری دونوں (قومی اور علاقائی بڑی زبانیں) بلوچستان کے اس چھوٹے سے خطے سے نکل کر دنیا کے ہر کونے میں پھیل رہی ہیں اور اس خوشی میں پنہاں فکر، اضطرابیت اور کھنچاؤ کو بھی بڑی حد تک محسوس کیا جا سکتا تھا۔

اچھنبے کی بات تو یہ ہے کہ یہی کیفیت خوشی اور مسرت چند ماہ پہلے بھی بلوچستان اور بالخصوص براھوئی بولنے والے بلوچوں میں دیکھا گیا تھا جب ڈاکٹرلیاقتسنی جو کہ یونیورسٹی آف بلوچستان کوئٹہ میں براھوئی زبان کے پروفیسر، براھوئی زبان کے اچھے شاعر اور ادیب ہیں اور حال ہی میں جاپان میں پوسٹ ڈاکٹری ایٹ کی ڈگری مکمل کرنے کیلئے جا چکے ہیں، نے ٹوکیوں (جاپان) میں لیٹریچر کے طلبہ کو براھوئی سکھانے کا آغاز کرچکے تھے اور چھ ماہ بعد (Koya kawade) نامی بچے کو سوشل میڈیا پر براھوئی میں بات کرتے ہوئے دیکھا اور سنا گیا۔تب شاید کوئی سوال، کھنچاؤ اور فضاء میں مہلک کوئی گھٹن محسوس نہیں کی گئی تھی مگر چین میں بلوچی و براہوئی ادب کے پہنچنے اور سکھائے جانے پہ سب کو جیسے سانپ سونگ گیا ہو۔
مگر کیوں؟
کچھ ہے جو لوگوں کے دلوں میں کٹھک رہی ہے مگر کیا؟
خدا جانیں!
ایک صاحب تو یہ خبر سناتے ہوئے کہہ رہیں تھے کہ وہ وقت جلد آئے گا جب چینی حضرات ہر چوراہے، چوکی، بھاڑ، سمندر کنارے، ہوٹل مسجد مندر، پیر شیخ، ولی اکبر و اصغر کے در و درگاہ پہ کھڑے بلوچوں کو اِنہی کے سرزمین پر انہی کے زبان بلوچی یا براھوائی میں اپنے مخصوص لہجہ اور انداز میں پوچھ رہیں ہونگے کہ
“واجہ تہ کئے وئے؟ شہ کجا کایئے؟ کجا رواگائے؟
یا
دیر اُس؟ اراکان بریسہ؟ ارانگ کاسہ؟”
انہی باتوں کو لے کر شاید ہر اذہان موقوف اور سن پڑے ہوئے ہیں کہ کیا واقعی وہ دن دور نہیں جب سوالات وہی مگر چہرے اور لہجے بدل چکے ہونگے۔
ہاں یاد آیا۔
“ایک دن گوادر میں کھڑا میرے ہاتھ اوپر اور چہرا بھیگا ہوا تھا اور بلوچی میں مجھ سے تلخ، غیر مرئی اور تحکمانہ انداز سے وہی سب سے زیادہ دہرائے جانے والے سوالات پوچھے جارہیں تھے مگر اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ وہ شہر گوادر نہیں شال (کوئٹہ) ہے،
نہیں سوالات وہی مگر مقام۔۔۔ قلات ہے
دیکھتے ہی دیکھتے حیرانگی میں تب مزید اضافہ ہوا کہ چھوٹے آنکھوں اور چھوٹی قد کاٹ والا گورا چٹا وہی شخص ، لہجہ وہی اور الفاظ بھی مگر علاقے کسی ڈرامائی انداز میں بدلتے جارہے تھے۔ گوادر، پسنی، شال، قلات، تربت، خاران، کاہلو، سوئی مشرق، مغرب شمال جنوب حتیٰ کہ نیمرغ میں اپنے ویران بستی میں بھی وہی شخص، وہی سوالات، وہی میں اور وہی بےبسی۔۔۔
(دھڑام سے اٹھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میں اپنے بستر پہ پسینے سے شرابور ایک خواب دیکھ رہا تھا۔۔۔۔اچھا یا برا؟ نہیں معلوم)
یقیناً دل مضطرب بے چھین اور بے قرار ہے کہ بلوچی ادب کی فروغ پہ خوشی منائیں یا تاریک اور تلخ مستقبل کی اذیتوں کو سوچ کر ماتم کریں۔
پس
بہت دنوں بعد سحر ٹوٹ گئی اور ہوش سنبھالتے ہی میں لکھنے لگا “چین میں بلوچی ادب اور بلوچستان میں سیاہ بادلوں کا راج”


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔