چین نے پاکستان میں چائنہ کی سب سے بڑی پروجیکٹ پاک چائنہ ایکانومک کوریڈور “سی پیک” پر مزید سرمایہ کاری سے انکار کردیا ہے-
جاپانی مالیاتی اخبار نکی ایشیا کی جاری رپورٹ کے مطابق، چین نے مبینہ طور پر سیکیورٹی اور سیاسی عدم استحکام کے خدشات کے باعث بیلٹ اینڈ روڈ کے تحت پاکستان کی جانب سے نئے پروجیکٹس کی تجاویز کو مسترد کردیا ہے۔
2 اکتوبر کو شائع ہونے والی اس رپورٹ میں دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطحی ملاقات کے منٹس کا حوالہ دیا گیا ہے، جس میں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پی ای سی) میں مزید سرمایہ کاری کرنے میں چین کی ہچکچاہٹ کا اشارہ شامل ہے، جو بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے تحت 50 بلین ڈالر کا منصوبہ ہے۔
پاکستان کے مجوزہ منصوبوں میں توانائی، موسمیاتی تبدیلی، بجلی کی ترسیل اور سیاحت جیسے شعبوں کا احاطہ کیا گیا ہے، تاہم بیجنگ نے مبینہ طور پر ان تجاویز کو مسترد کردیا ہے-
اخبار کے مطابق چینی حکام نے پاکستان کی جانب سے پیش کردہ خیال گوادر بندرگاہ کو کراچی کے بجلی کے گرڈ سے منسلک کرنے کا منصوبہ مسترد کر دیا ہے، اس کے علاوہ چین نے اسلام آباد کو گوادر میں کوئلے سے چلنے والے 300 میگاواٹ پاور پلانٹ برقرار رکھنے پر مجبور کیا، جسے پاکستان گوادر سے منتقل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔
نکی ایشیاء کے مطابق اپریل 2022 میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی برطرفی اور بلوچستان میں چینی مفادات پر حملوں میں شدت کے ساتھ ساتھ ملک میں سیاسی عدم استحکام نے چین کے سی پیک پر مزید سرمایہ کاری کے فیصلے کو متاثر کیا ہے۔
اس حوالے سے ایس راجارتنم اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کے جیمز ایم ڈورسی نے نکی ایشیا سے بات کرتے ہوئے پاکستان میں چینی مفادات پر حالیہ حملوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ بیجنگ اپنے اثاثوں اور اس پروجیکٹ پر کام کرنے والے اپنے شہریوں کو خطرے میں دیکھتا ہے۔
واضع رہے اگست میں ایک قابل ذکر واقعے میں گوادر میں چینی انجینئرز کے قافلے کو بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ نے نشانہ بنایا۔ اس حملے کے نتیجے میں متعدد ہلاکتیں ہوئیں، جن میں چینی شہری بھی شامل تھے۔
رواں سال اگست میں ہونے والے اس حملے کے وقت بی ایل اے اپنے بیان میں چین کو 90 دن کا الٹی میٹم دیا جہاں انہوں نے چین کو بلوچستان سے انخلاء کرنے یا خطے میں اپنے اہم مفادات پر تیز حملوں کی تیاری کی دھمکی دی تھی۔
جبکہ بلوچ لبریشن آرمی کے سربراہ بشیر زیب بلوچ نے بھی ایک ویڈیو پیغام میں چین سمیت دیگر ممالک کو مخاطب کیا جس میں بلوچستان میں سرمایہ کاری کی پالیسی ترک کرنے کا کہا گیا۔
ان مسلسل دھمکیوں اور بی ایل اے کی واضح تنبیہ کے پیش نظر سی پیک میں مزید سرمایہ کاری کے حوالے سے چین کی ہچکچاہٹ خطے میں اس کے اثاثوں اور اہلکاروں کی سلامتی کے خدشات میں جڑی دکھائی دیتی ہے۔