بلوچستان کے ضلع چمن میں پاک افغان سرحد پر آمدروفت کو مکمل دستاویزی بنانے اور ویزا اور پاسپورٹ کو لازمی قرار دینے کے فیصلے کے خلاف پانچ دنوں سے دھرنا جاری ہے۔
سرحدی تجارت سے وابستہ مزدوروں اور چھوٹے تاجروں کی تنظیم کی جانب سے دن رات جاری اس دھرنے کی حمایت تاجر تنظیموں سمیت تقریباً 20 جماعتیں اور تنظیمیں بھی کر رہی ہیں۔
تاجر لغری اتحاد کے چیئرمین صادق اچکزئی کا کہنا ہے کہ چمن پاک افغان سرحد کے قریب سنیچر کو دھرنا شروع کیا گیا جو گذشتہ پانچ دنوں سے بغیر کسی وقفے کے جاری ہیں اور رات بھی مظاہرین احتجاجی کیمپ میں گزار رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ دھرنا دونوں طرف کے سرحدی علاقوں کے تاجروں اور عام عوام کے لیے پاک افغان سرحد پر آمدروفت کے لیے پاسپورٹ اور ویزے کی شرط لازمی قرار دینے کے فیصلے کے خلاف دیا جا رہا ہے۔
’جب تک حکومت فیصلہ واپس نہیں لیتی ہمارا دھرنا جاری رہے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ احتجاج میں جمعیت علما اسلام، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، جماعت اسلامی، جمعیت اہلحدیث، انجمن تاجران، چیمبر آف کامرس سمیت تقریباً 20 تنظیمیں اور جماعتیں ہمارے ساتھ شریک ہیں۔ جمعرات کو شہر میں احتجاجی ریلی بھی نکالی جائے گی۔
دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے پشتونخوا میپ اور جے یو آئی سمیت دیگر جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی اعلان کیا کہ چمن کے لوگوں کے لیے سرحد پر آمدروفت کے لیے پاسپورٹ اور ویزے کی شرط قابل قبول نہیں، اس فیصلے کو فوری واپس لیا جائے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان پیدل آمدروفت اور تجارت کے لیے طورخم اور چمن سب سے بڑی گزرگاہیں ہیں۔ طورخم سرحد پر 2016 میں آمدروفت کے لیے پاسپورٹ اور ویزا لازمی قرار دے دیا گیا تھا تاہم متعدد کوششوں کے باوجود پاکستانی حکومت چمن سرحد پر پاسپورٹ اور ویزے کے اطلاق کو یقینی نہیں بناسکی۔
اس وقت افغان صوبہ قندھار کے رہائشیوں کو افغان شناختی دستاویز ’تذکرہ‘ پر پاکستان میں اور شناختی کارڈ پر چمن کا پتہ رکھنے والے پاکستانی باشندوں کو افغانستان میں داخلے کی اجازت حاصل ہے۔ تاہم حکومت پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ یکم نومبر سے سرحدی علاقوں کے باشندوں سمیت کسی کو پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر آمدروفت کی اجازت نہیں ہوگی۔
76 سالوں میں پاسپورٹ اور ویزے کی شرط کو مکمل طور پر نافذ کرنے کا یہ پہلا موقع ہوگا جس کی وجہ سے مزدوری، تجارت، علاج یا پھر رشتہ داروں سے ملنے کے لیے سرحد پار آنے جانے والے دونوں ممالک کے سرحدی علاقوں کے رہائشی ناخوش ہیں۔
ایف آئی اے کے اعداد و شمار کے مطابق رواں مہینے کے آغاز تک روزانہ 15 ہزار سے زائد افراد یہ سرحد عبور کرتے تھے جن میں نصف تعداد پاکستانیوں اور نصف افغان باشندوں کی ہوتی تھی۔ ان میں سے صرف 2 فیصد کے پاس پاسپورٹ اور ویزا ہوتا تھا۔
نگراں وزیر اطلاعات بلوچستان جان اچکزئی کے مطابق گذشتہ روز پاکستان اور افغان حکومت کے سرحدی حکام کی ایک فلیگ شپ میٹنگ ہوئی جس میں بارڈر مینجمنٹ کے معاملات زیر غور آئے۔ اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی ڈپٹی کمشنر چمن راجہ اظہار عباس، کمانڈنٹ ایف سی چمن سکائوٹس عمر جبار نے کی۔
انہوں نے بتایا کہ اجلاس میں غیرقانونی افغان مہاجرین کے انخلا کے حوالے سے سہولیات کی فراہمی پر بات چیت کی گئی۔ سرحد پر آمدروفت کے حوالے سے بالخصوص مریضوں کو درپیش مشکلات پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔ ون ڈاکومنٹ رجیم اور مقامی آبادی کو درپیش مسائل کے مؤثر حل کے لیے دونوں ممالک کے حکام کے درمیان اچھے ماحول میں مشاورت جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔
جان اچکزئی کے مطابق پاکستانی وفد نے مقامی آبادی کو درپیش مسائل کے مؤثر حل کے لیے اپنے بھر پور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
تجزیہ کار سلیم شاہد کے مطابق قیام پاکستان کے بعد بلوچستان کے ضلع چمن سے ملحقہ پاکستان افغان سرحد پر آمدروفت کے لیے ’ون ڈاکومنٹ رجیم‘ یعنی صرف مستند ویزے اور پاسپورٹ کی پالیسی لاگو ہونے کا یہ پہلا موقع ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’انگریز دور میں راہداری پر سفر کی اجازت دی جاتی تھی جو متعلقہ ضلع کا ڈپٹی کمشنر کا دفتر دیتا تھا۔ اس کے بعد پاکستانی یا افغانی شناختی کارڈ یا پھر بغیر دستاویزات کے ہی آمدروفت ہوتی آ رہی ہے۔‘
سلیم شاہد نے کہا کہ پاسپورٹ اور ویزا کی نئی شرط علاج، کاروبار، روزگار اور پناہ کی تلاش میں پاکستان آنے والے افغان باشندوں بالخصوص بلوچستان سے ملحقہ افغانستان کے پشتون اکثریتی جنوبی صوبے قندھار کے رہائشیوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی شہر چمن کے باشندوں اور سرحد پر آباد منقسم قبائل کو متاثر کرے گی۔
چمن کے صحافی اختر گلفام کے مطابق چمن سے تعلق رکھنے والے تقریباً سات ہزار پاکستانی باشندوں کی افغانستان کے سرحدی ضلع سپین بولدک میں دوکانیں، موٹر شوروم اور گودام ہیں یا وہاں کوئی نہ کوئی کاروبار کر رہے ہیں۔
یہ لوگ روزانہ صبح افغانستان جاتے اور شام کو پانچ بجے سرحد بند ہونے سے پہلے پہلے واپس پاکستان آجاتے ہیں۔
اسی طرح چمن سرحد پر پاکستانی حکام نے مقامی باشندوں کو باب دوستی دروازے پر چھوٹے پیمانے پر تجارتی سامان کی سمگلنگ کی اجازت دے رکھی ہے۔
سامان کی ترسیل کرنے والے ان افراد کو مقامی طور پر ’لغڑی‘ کہا جاتا ہے۔ ان کے لیے سرحد پر آزادانہ طور پر آنے جانے کے لیے صرف پاکستانی شناختی کارڈ پر چمن کا پتہ درج ہونے کی شرط ہے۔
اختر گلفام کے مطابق سرحد پر آمدروفت کے لیے پاسپورٹ اور ویزے کی شرط عائد ہونے کی وجہ سے یہ دو طبقات سب سے زیادہ متاثر ہوں گے اور کم از کم 10سے 12 ہزار خاندان بے روزگار ہو جائیں گے۔
دوسری جانب پاکستان کی جانب سے پاک افغان چمن سرحد پر آمدورفت کو قانونی شکل دینے کے لیے شروع کیے گئے اقدامات کی سرحد پر تعینات افغان حکام کی جانب سے بھی مخالفت سامنے آ رہی ہے۔
پاکستانی حکومت نے 10 اکتوبر سے افغان سرحدی صوبے قندھار اور سرحدی شہر سپین بولدک کے باشندوں کو صرف کمپیوٹرائزڈ افغان شناختی کارڈ ’تذکرہ‘ پر داخلہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ اس سے پہلے ایک صفحے پر مبنی ہاتھ سے لکھے ہوئے تذکرہ کی بنیاد پر بھی داخلے کی اجازت دی جا رہی تھی۔
نئے فیصلے پر عمل درآمد کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد افغان فورسز کاروبار اور روزگار کے لیے افغانستان جانے کے خواہش مند چمن کے رہائشیوں کو پاکستانی شناختی کارڈ پر داخل ہونے سے روک رہی ہیں۔ اس صورت حال کی وجہ سے روزانہ سرحد کئی کئی گھنٹے تک بند رہتی ہے۔
چمن کے چھوٹے تاجروں اور مزدوروں کی تنظیم کے رہنما صادق اچکزئی کا کہنا ہے کہ دونوں اطراف کے سرحدی علاقوں کے باشندوں کو پہلے کی طرح شناختی کارڈ اور افغان تذکرہ پر آنے جانے کی اجازت دی جائے۔ سرحد پر حکومت کے پاس پہلے سے کمپیوٹرائزڈ نظام نصب ہے جس کی مدد سے صرف سات سیکنڈ میں شناختی کارڈ اور تذکرہ سکین ہوتا ہے۔ اس طرح حکومت کے پاس آنے جانے والوں کامکمل ریکارڈ رہتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاسپورٹ اور ویزا کا حصول آسان نہیں۔ اس میں مقامی لوگوں کو بڑی مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ اگر حکومت مکمل طور پر پاسپورٹ اور ویزے کی شرط کا اطلاق کرتی ہے تو اس سے ہزاروں لوگ بے روزگار اور اپنے رشتہ داروں سے ملنے سے محروم ہوجائیں گے۔