وڈھ میں فوجی آپریشن کی تیاریاں شروع

990

ایپکس کمیٹی بلوچستان کے اجلاس میں وڈھ میں مورچوں کو خالی کرنے کی ڈیڈ لائن آج ختم ہورہی ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق بڑی تعداد میں فورسز کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔

بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے بھی آج 15 اکتوبر کو بی این پی کے مرکزی کابینہ اور مرکزی کمیٹی کے اراکین کا اجلاس وڈھ میں طلب کیا ہے۔

آئی جی پولیس بلوچستان کی آفس سے جاری ہونے والے ایک مراسلے میں مختلف اضلاع سے پولیس، اے ٹی ایف اور سی ٹی ڈی کے آفیسران کو ایس پی آفس خضدار میں رپورٹ کرنے کی ہدایات جاری کئے گئے ہیں۔

مراسلے میں لاجسٹک سپورٹ، افرادی قوت اور بم پروف اور بلٹ پروف گاڑیاں مہیا کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔

محکمہ داخلہ نے ایک نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے بلوچستان میں دفعہ 144 نافذ کیا ہے، سیاسی جلسے، جلوسوں، ریلیوں اور دھرنوں کے علاوہ شاہراہوں کو بند کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے کیونکہ بی این پی نے وڈھ میں کسی بھی ممکنہ آپریشن کے خلاف ریلی، مظاہروں، شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کی کال دے رکھی ہے۔

ذرائع کے مطابق گذشتہ دنوں ایف سی کمانڈنگ خضدار نے بھی وڈھ کا دورہ کیا ہے جبکہ ڈرون سے علاقے کا فضائی جائزہ بھی لیا گیا ہے۔

اختر مینگل کے حمایتی ذرائع بتا رہے ہیں کہ 23 جون سے قبل کی پوزیشن کا مطلب ہے کہ سردار اختر مینگل اپنے مورچوں کو خالی کریں جبکہ شفیق مینگل نے پیش قدمی کرکے سینگوٹ اور جو زمین قبضہ کیا تھا وہ اس پوزیشن پر بدستور برقرار رہے ہیں، تمام تر حکومتی اور قبائلی سطح پر ہونے والے جرگے اور وفد اس نقطے پر آکر ڈیڈ لاک کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ یکطرفہ طور پر سردار اختر مینگل کو پیچھے ہٹنے اور مورچے خالی کرنے کے لئے استدعا کرتے ہیں جبکہ سردار اختر مینگل اور مینگل قبیلے کے دیگر معتبرین کا موقف ہے کہ شفیق مینگل اور اس کے مسلح لوگ اپنے حد و حدود سے تجاوز کرکے ہمارے زمینوں پر آکر بیٹھے ہوئے ہیں کسی بھی ممکنہ جرگہ و فیصلے سے قبل انہیں یہاں سے بیدخل کیا جائے۔

ان کا یہ موقف بھی ہے کہ یہ کوئی قبائلی مسئلہ نہیں ہے بلکہ وڈھ میں جارحیت کے لئے راہ ہموار کرنے کی خاطر یہ مصنوعی مسئلہ کھڑا کیا گیا ہے، اس آڑ میں ریاست سردار اختر مینگل کو راہ سے ہٹانے اور کوہلو و ڈیرہ بگٹی کی طرح وڈھ کا کنٹرول حاصل کرنے اور اپنے ڈیتھ اسکواڈز کو یہاں مسلط کرنے کے لئے ڈرامہ رچا رہی ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر یہ قبائلی مسئلہ ہوتا یا ایک زمین کے ٹکڑے کا مسئلہ ہوتا تو ریاستی ادارے اس میں اس طرح مداخلت نہیں کرتے اور نہ ہی شفیق مینگل کو یکطرفہ ریاستی مدد فراہم کرتے، اگر یہ کوئی عام قبائلی مسئلہ ہوتا تو قبائلی رسم و رواج کے مطابق حل ہوسکتا تھا لیکن جس طرح اس مسئلے کو ایک عام و سادہ قبائلی مسئلہ بناکر پیش کیا جارہا ہے یہ ایک ریاستی چال ہے، ریاست قبائلی مسئلے کا سہارا لیکر سردار اختر مینگل کو سیاسی حوالے سے محدود کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

بی این پی کے سربراہ نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وڈھ سے لاتعداد لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں۔ کاروبار بند ہو چکے ہیں۔ میڈیا و صحافی اور ساتھی سیاست دان اس مسئلے پر مکمل خاموش ہیں۔ مسئلے کو ‘حل’ کرنے کا معاہدہ صرف ڈیتھ اسکواڈ کے حق میں ہے۔ میرے لوگوں کو نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ مجھ پر اور میرے لوگوں پر حملہ کرنے کا ایک اسٹریٹجک منصوبہ بنایا گیا ہے۔

انہوں نے مزید لکھا ہے کہ وڈھ کی دکانیں 2 ماہ بعد آج دوبارہ کھل گئیں۔ تاہم ایف سی نے انہیں فوری طور پر بند کرنے کا حکم دیا ہے کہ جب تک کہ انہیں ڈیتھ اسکواڈ کی طرف سے اجازت نامہ نہیں مل جاتا وہ دوکانیں نہیں کھول سکتے۔

مقامی لوگوں نے دی بلوچستان پوسٹ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ شفیق مینگل محض ایک مہرہ ہے اُس کو بطور آلہ استعمال کیا جارہا ہے اور شفیق مینگل کو مدد فراہم کرنے کے لئے ریاست نے بلوچستان بھر سے ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے لوگوں کو وڈھ میں جمع کی ہے، رحمت اللہ رخشانی اور سعید محمد حسنی کی ان جھڑپوں میں ہلاکت اس بات کا واضح ثبوت ہے، اس کے علاوہ شفیق مینگل کی مدد کے لئے نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی اور میر ہزار خان مری کے بیٹے کے پرائیوٹ سرکاری لشکر کے لوگوں کے علاوہ رانا اشفاق نے لشکر طیبہ کی جہادی بھی بڑی تعداد میں لڑنے کے لئے بھیجے ہیں جو مقامی آبادیوں پر حملہ کرنے علاوہ مسافر اور مال بردار گاڑیوں کو نشانہ بناتے ہیں مقامی آبادیوں پر گولہ بھاری سے متعدد بچے جاں بحق اور زخمی ہوچکے ہیں جبکہ شاہراہ پر گاڑیوں کو نشانہ بنانے سے کئی مسافر اور ڈرائیور بھی مارے جاچکے ہیں۔

سیاسی مبصرین کے مطابق ریاست نے وڈھ میں خونریزی اور جارحیت کا پلان بنا چکی ہے اس لئے مصالحتی کوششوں کو جان بوجھ کر سبوتاژ کیا جارہا ہے اس حوالے سے مصالحتی کوششوں میں شامل نواب زادہ لشکری رئیسانی نے گزشتہ دنوں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ منظم منصوبہ بندی کے تحت ایسے لوگوں کو حکومت میں لایا گیا ہے صوبے میں خون ریزی جن کے مفاد میں ہے وڈھ تنازعہ کے حل کیلئے سردار اختر جان مینگل نے مجھے اپنا ثالث مقرر کیا ہے اور شفیق الرحمن مینگل کی طر ف سے بھی ثالث مقرر کئے گئے ہیں اور چیف سیکرٹری بلوچستان نے باقاعدہ ہمیں جرگہ ممبران کو نوٹیفائی کیا ہے ہم اس انتظار میں تھے کہ تنازعہ کے پرا من کیلئے جرگہ ممبران کا اجلاس طلب کیا جائیگا۔

انہوں نے کہا کہ کچھ روز قبل اچانک پہلے مجھے اطلاع دی گئی کہ کل خضدار میں اجلاس طلب کیا گیا لیکن اجلاس نہیں بلائی، ہم اس انتظار میں تھے کہ کمشنر قلات ڈویڑن دوبارہ اجلاس طلب کرکے ہمیں مطلع کریگا۔ تاہم اس دوران کوئٹہ میں ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ مورچے ختم کئے جائیں گے اس کا مطلب ریاست کہتی کچھ ہے، کرتی کچھ ہے اور ان کا ہدف کچھ اور ہے، خون ریزی روکنا نہیں۔