مجھے چھوڑ کر مت جاؤ ۔ محمد خان داؤد

220

مجھے چھوڑ کر مت جاؤ 

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

فلسطینی بچی کی یہ صدا”مجھے چھوڑ کر مت جاؤ!“آنسوؤں سے نہیں پر لہو سے بھیگی ہوئی ہے۔اور ہم سے بہت سے اسے چھوڑ کر اس انتظار میں ہیں کہ پاک بھارت میچ کا کیا ہوگا؟ بلکہ میچ کب ہوگا پر میچ کے بعد کیا ہوگا؟ہمیں وہ صدا سنائی ہی نہیں دے رہی جس صدا میں معصوم فلسطینی بچی ہم سب سے یہی التجا کر رہی ہے کہ”مجھے چھوڑ کر مت جاؤ!“پر ہم تو اس معصوم بچی کو چھوڑ چکے ہیں چھوڑنا کیا پر بھول چکے ہیں۔ہم کیا اس بچی کو تو مسلم دنیا بھول چکی ہے۔مسلم دنیا کیا پر اس معصوم بچی کو عالمی ضمیر بھی بھول چکا ہے۔عالمی ضمیر کیا اسے تو امیرالمومین کے خواب دیکھنے والا طیب اردگان بھی بھول گیا ہے۔مکا لہراتا اور شعر پڑھتا شہباز شریف اسے بھول گیا ہے۔گلابی اردو اور یورپین اسٹائل کی انگریزی بولتا بلاول بھٹو بھول گیا ہے۔اسے امتِ مسلمہ کا خیر خواہ مولانا فضل ارحمٰن بھول چکا ہے۔جماعت کو اب وہ بچی یاد ہی نہیں جو غزہ کے خوف میں لپٹے اسپتال کے لہو لہو بیڈ سے پکار رہی ہے کہ ”مجھے چھوڑ کر مت جاؤ!“

اسے وہ لبرل بھول چکے ہیں جو انسانی حقوق انسانی حقوق کی ٹاں ٹاں سے نہیں تھکتے۔

اسے عمرہ ادا کرتا نواز شریف بھول بیٹھا ہے۔نواز شریف کو جنید صفدر یاد رہ گیا ہے جو امیر زادہ ایک لڑکی کو چھوڑ کر دوسری لڑکی کی تلاش میں ہے پر نواز شریف سے وہ معصوم بچی بھول گئی ہے جو عالمی ضمیر کو کہہ رہی ہے کہ”مجھے چھوڑ کر مت جاؤ!“

اس معصوم بچی کو وہ بھول گئے جو کیمرہ کے سامنے آتے ہیں اور اس معصوم بچی کو وہ بھی بھول بیٹھے ہیں جو کیمرہ کے سامنے آتے ہیں۔اسد عمر سے لیکر خاقان عباسی تک۔خواب دیکھتا منظور وسان سے لیکر نفیس انسان ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی تک سب اس معصوم بچی کو بھول گئے ہیں جو اس وقت بہت سہمی ہوئی ہے جو اس وقت بہت ڈری ہوئی ہے۔جس کا وجود بُری طرح زخمی ہے۔جس کی ماں شہید ہو چکی ہے۔جس کے بھائی مارے جا چکے ہیں۔جس کا بابا ملبے میں دبا ہوا ہے۔جس کی معصوم بہن اپنی کپڑے کی گڑیا کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ سو گئی۔جس کی کتابیں ملبے کے اوپر رہ گئیں اور معصوم چھوٹے چھوٹے پیر اپنے چھوٹے چھوٹے جوتوں کے ساتھ بھاری کنکر کے ملبے تلے دب گئے۔وہ بچی نہیں جاتی کہ جنگ کیا ہوتی ہے۔وہ بچی تو امن کی فاختہ ہے اور اکھروٹ کے درختوں پر بیٹھ کر محبت کے نغمے گنگناتی ہے۔اسے بیت المقدس کے بارے میں کچھ علم نہیں۔اسے پہلے کعبہ کے بارے میں کچھ خبر نہیں۔وہ دیوارِ گریہ کو نہیں جانتی۔

وہ اسلام سے واقف نہیں۔وہ یہودیت سے واقف نہیں۔وہ قرآن سے لاعلم ہے۔وہ زبور کی آیات نہیں جانتی۔وہ معصوم تو اتنا قرآن بھی نہیں جانتی جتنا قرآن رحمٰن ملک اور شیخ رشید جانتے ہیں!

وہ جنگ کے نعرے ”اللہ اکبر!“ سے واقف نہیں۔وہ موسیٰ کے اس قول سے واقف نہیں کہ

”جب تم پر کوئی ایک پتھر پھینکے تو تم اس پر پوری طاقت سے بلاک پھینکو!“

وہ تو ہر روز اپنی ماں سے یسوع کا یہ قول سنتی تھی کہ

”جب کوئی تمہا رے گال پر ایک تھپڑ مارے تو تم اسے اپنا دوسرا گال بھی پیش کر دو!“

پر اس معصوم بچی پر تو بھیڑیا اسرائیل کلوسٹر بارود برسا رہا ہے

اب عالمی ضمیر سے پوچھنا یہ ہے کہ کیا وہ معصوم بچی بھیڑئیے اسرائیل کے سامنے اپنا دوسرا گال بھی پیش کرے؟جب کہ اس کا وجود سلامت نہیں پر وہ زندہ ہے اور عالمی ضمیر کو کہہ رہی ہے کہ

”مجھے چھوڑ کر مت جاؤ!“

وہ بچی کو خوش قسمتی سے بچ بارود سے تو بچ گئی ہے ہر اب ڈر رہی ہے اور وہ معصوم بچی یہی سمجھ رہی ہے کہ اگر کچھ لوگوں کو ساتھ اس کے ساتھ رہا تو شاید اسرائیلی بھیڑئیے اس پر اب بارود نہ بر سائیں!

اسی لیے غزا کے اسپتال میں آتے جا تے لوگوں،زخمیوں۔مرے ہوئے وجودوں۔روتی ماؤں۔زخمی باباؤں سے کہہ رہی ہے کہ”مجھے چھوڑ کر مت جاؤ!“

پر میں اس معصوم بچی کو بتانا چاہتا ہوں کہ اسے تو سب چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں

حماس والے بھی اور حزب اللہ والے بھی

اب تو غزا میں آگ ہے جس میں سب کچھ جل رہا ہے

ماں کا دامن بھی

محبوبہ کے پستان بھی

اب اس آگ میں تو ان ماؤں کی وہ صدائیں بھی جل رہی ہیں جو وہ اپنے گم شدہ،مرے ہوئے اور گم شدہ بچوں کو دے رہی ہے۔اب غزا جل رہا ہے

ایسے میں اس معصوم بچی کہ یہ صدا کون سنے گا کہ

”مجھے چھوڑ کر مت جاؤ!“

پر میں اس معصوم بچی کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اسے وہ عرب شہزادے بھی چھوڑ گئے ہیں جو اپنے ملک میں تو انسانی حقوق کے کارکنوں کی گردنوں کو اُڑاتے ہیں پر اس اسرائیلی کی جوتیاں اُٹھاتے ہیں جو اسرائیل فلسطین کے معصوم بچوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔اسرائیل بس غزا کی پٹی میں معصوم بچوں پر بارود نہیں برسا رہا پر اسرائیل ان حاملہ محبوباؤں کو بھی بارود سے راکھ کر رہا ہے جن کے شکم میں محبت پل رہی ہے!

میری معصوم بچی ہم بذدل قوم ہیں

غلام ہیں

مقروض ہیں

ہمیں معاف کرو

ہم تو تمہیں کب کا چھوڑ چکے ہیں

ہمارا نام نہاد میڈیا بھی صبح شام یہ دکھتا اور بتاتا ہے کہ بابر نے حیدر آباد میں کون سی بریانی کھائی اور رضوان نے میٹھے میں کیا لیا

ایسا نام نہاد میڈیا تمہا ری یہ صدا نہیں سن سکے گا کہ

”مجھے چھوڑ کر مت جاؤ!“


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔