مبارک قاضی کے خواب کو آزادی دو – محمد خان داؤد

143

مبارک قاضی کے خواب کو آزادی دو

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

اگر تم ان کی آنکھوں پر قبائلیت کی پٹی نہیں باندھو گے تو ان کی آنکھیں آزاد خواب دیکھیں گی
اگر تم ان کے پر نہیں کاٹو گے تو یہ آکاش پر اُڑیں گے
اگر تم ان کے پیروں میں نام نہاد عزت کی زنجیر نہیں ڈالو گے تو ان کے پیروں کے سامنے دھرتی سُکڑ جائیگی
اگر تم ان پر اعتبار کرو گے تو یہ تمہا را دامن نام وری سے بھر دیں گے
اگر ان کا ہاتھ تھام لو گے تو یہ تمہیں بھی ڈوبنے نہیں دیں گی
دوپٹہ بس چہرے کا رُخ چھپانے کے لیے نہیں ہوتا
دوپٹہ پرچم بنانے کے کام بھی آتا ہے
انہیں اپنا دوپٹہ پرچم بنالینے دو!
یہ تمہا ری آنکھیں ہیں انہیں بند دیواروں کے پیچھے مت دھکیلو!
یہ تمہا رے پیر ہیں انہیں کاٹ کر کنوئیں میں مت پھینکو
یہ تمہاری عزتیں نہیں یہ تمہارا یقین ہیں اپنے یقین پر یقین کرو
کم عمری میں ان کے ہاتھ مہندی کے رنگوں سے مت رنگو،ان کے ہاتھوں میں رنگ دو
اور انہیں آسماں رنگنے دو
انہیں بارشوں میں بھیگنے دو
ان پر تتلیوں کو اُڑنے دو
ان پر قوس قزا کے رنگوں کو کھلنے دو
انہیں اتنی آزادی تو ضرور دو
جنتی آزادی زباں اور کان کے درمیاں ہے
انہیں اتنی آزادی تو ضرور دو
جتنی آزاد دل و دماغ میں ہے
انہیں اتنی آزادی تو ضرور دو جتنی آزادی ہاتھوں اور پیروں کے درمیاں میں ہے
یہ آزاد ہونگی تو آکاش وسیع ہوگا۔آکاش وسیع ہوگا تو اُڑان وسیع ہوگی۔اُڑان وسیع ہوگی تو منزل قریب ہوگی!
انہیں آنکھوں سے دیکھو اور دل سے قبول کرو
یہ دھرتی کا خواب ہیں اور دھرتی کو اپنا خواب بہت عزیز ہوتا ہے
ان پہ یقین کرو۔انہیں آزاد چھوڑو،انہیں اُڑنے دو یہ دھرتی کا سنہرا خواب ہیں
ایسا خواب جس خواب کے لیے مبارک قاضی کے کہا تھا کہ
”خواب میں کیا دیکھتا ہوں
دھرتی جھوم رہی ہے
حیراں ہوں کہ کیوں؟
دوسری طرف دیکھتا ہوں کہ
تتلیاں آزاد ہیں اور پھولوں پہ ناچ رہی ہیں!“
یہ مبارک قاضی کا خواب ہیں انہیں آزادی دو
بلوچستان بارکھان کی آنکھوں کا اد کھلی آنکھوں کا خواب نہیں۔بلوچستان شال کی آنکھوں سے دیکھا پورا خواب ہے۔بلوچستان بس جھوٹے سیاست دان کا جلدی میں داغا بیان نہیں۔بلوچستان قاضی کا دل سے لکھا شعر ہے۔بلوچستان کچی سڑک پر ایف سی کی چوکی نہیں پر بلوچستان معصوم آنکھوں سے دیکھا خواب بھی ہے۔بلوچستان بس اختر مینگل اور ڈاکٹر مالک کا ہوا میں چھوڑا خالی کارتوس نہیں بلوچستان نئی اُمید بھی۔نئی اُمنگ بھی ہے۔بلوچستان بس ڈیتھ اسکوائڈ نہیں۔پر بلوچستان نیا جنم بھی ہے جسے ماں اپنی محبت بھری آنکھوں سے دیکھ کر چوم لیتی ہے اور دھرتی نئی انگڑائی لیتی ہے۔بلوچستان بس ووٹ نہیں جسے کسی بھی سردار کو دے دیا جائے۔بلوچستان واعدہ بھی ہے جو محبت میں کیا جاتا ہے اور پو ری عمر نبھایا جاتا ہے۔یہ بھی بلوچستان کا نیا واعدہ ہیں۔دھرتی کا پرچم ہیں۔دھرتی کا وچن ہیں!
اپنے وچنوں کا اعتبار کرو اور انہیں اُڑنے دو۔دھرتی انہیں دیکھ کر مسکراتی ہے۔یہ دھرتی کی صبحیں ہیں
دھرتی اپنے اوپر ایسی ہی صبح چاہتی ہے۔انہیں دھرتی کی آنکھوں سے دیکھو اور انہیں اُڑنے دو!
دھرتی اپنے اوپر بہت بار سہہ چکی۔دھرتی بہت سہم چکی اب دھرتی کے دل کو دھڑکنے دو
یہ دھرتی کی دل ہیں انہیں دھرتی پر دھڑکنے دو!
مبارک قاضی نے کورے کاغذوں پر بہت سی نظمیں لکھیں
مہ سے
آنسوؤں سے
لہو سے
پر اب مبارک قاضی کی نظمیں لبادوں میں شال کے میدانوں میں کھیل رہی ہیں
انہیں کھیلنے دو
”میں نے تو بس کُن فیکون کہا تھا
باقی منظر سامنے تھا!“
یہ دھرتی کے شاعر کا خواب ہے
اس خواب کو سچ ہونے دو
دھرتی نے بہت وٹے سٹے دیکھ لیے۔دھرتی نے بہت کارو کاری دیکھ لیے۔دھرتی کے گلے میں عزت کا بھاری طوق بھی لٹک رہا ہے۔دھرتی نے اپنے سینے پر بہت سے جرگے بھی دیکھ لیے۔دھرتی کے دل پر خالی اداس کنوئیں کونجوں سے بھرے پڑے ہیں۔سرداروں۔میروں۔پیروں کے لوفر لڑکے معصوم لڑکیوں کا بہت شکار بھی کر چکے۔مائیں ماتم کرتی رہ گئیں اور بہت دور چاند یہ منظر دیکھتا رہ گیا۔باپ نے آنسو پونچھے اور اپنی عزت بھری پگڑی میر کے پیروں میں ڈال دی
دھرتی کا دامن سُکڑ رہا ہے
ماں پر ماتم کا موسم گزر رہا ہے
کچے گھر میں معصوم ہانل کا دل ڈوب رہا ہے
اور گھر سے بہت دور بھیڑیا ہانل کو تاک رہا ہے
شاعر خوابوں کو سوچ رہا ہے
شاعر کے خوابوں کا الفاظ دو
شاعر کے خوابوں کو قتل مت کرو
دھرتی کو جھومنے دو
یہ شاعر کا خواب ہیں
ان میں رنگ بھرو
خوابوں کو قتل مت کرو
انہیں اُڑنے دو
دھرتی انہیں دیکھ کر اپنا دامن وسیع کرتی ہے
دھرتی کے دامن کو وشال ہونے دو
قاضی کے خواب کو اُڑنے دو۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔