لاپتہ ممتاز بلوچ کی بازیابی کیلئے سوشل میڈیا مہم کا انعقاد

221

بلوچ وائس فار جسٹس کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر ایک سال قبل خضدار سے لاپتہ مشکے کے رہائشی نوجوان ممتاز بلوچ کی بازیابی کے لئے ایک آن لائن کمپین چلائی گئی، کمپین میں مختلف سیاسی و سماجی رہنماؤں، صحافی، انسانی حقوق کے کارکنوں نے حصہ لیتے ہوئے ممتاز بلوچ کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔

پی پی پی کے مرکزی رہنماء سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ بلوچ اور دیگر آئے روز غائب ہو رہے ہیں، ہزاروں لاپتہ ہوئے لیکن آج تک ایک بھی مجرم کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے نگران وزیراعظم نے گمشدگیوں کے لئے یہ جواز پیش کرنا کہ بھارتی کشمیر میں بھی لوگ غائب ہیں انتہائی تشویشناک ہے۔

پروفیسر ندا کرمانی نے پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ ممتاز بلوچ ایک سال سے لاپتہ ہیں۔ اسے 6 ستمبر 2022 کو زبردستی غائب کر دیا گیا تھا۔ براہ کرم اس کی فوری اور محفوظ واپسی کے مطالبے میں میرے ساتھ شامل ہوں۔

صحافی وینگس نے کمپین میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ نگراں وزیر اعظم کاکڑ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے اعداد و شمار سے انکار کر سکتے ہیں لیکن وہ کیسے انکار کر سکتے ہیں کہ ہر روز بلوچ خاندان ریاست سے اپنے خاندان کے افراد کے بارے میں پوچھتے ہیں۔

پشتون قوم پرست رہنماء سابق سینیٹر افرسیاب خٹک نے لکھا کہ کسی بھی عدالت میں پیش کیے بغیر ایک سے زائد مرتبہ غائب ہونے والا ممتاز بلوچ کا کیس بلوچستان میں جاری لاقانونیت کی عکاسی کرتا ہے۔ سیکورٹی ایجنسیاں جتنی بار چاہیں عدلیہ کو نظر انداز کر سکتی ہیں۔

شفیق احمد ایڈووکیٹ نے لکھا کہ ایک دفعہ نہیں،دو دفعہ نہیں تسلی ھوئی تو اب تیسری دفعہ اغواء کرلیا گیا ہے اور آرمی چیف کہتا ہے کہ ہمارے شہریوں کی زندگی ہمیں بہت مقدم ہے۔

صحافی و اینکر پرسن مہوش قماس خان نے کمپین میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ایک اور دن ایک اور ٹرینڈ۔ لاپتہ افراد کا تاحال کوئی نشان نہیں۔ مجھے امید ہے کہ انہیں جلد انصاف ملے گا۔ اپنے پیاروں کی محبت کے بغیر جینا واقعی مشکل ہے۔

وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ کی کنوینئر سورٹھ لطیف نے کہا کہ وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ کی جانب سے بلوچستان کے علائقے خضدار سے تیسری مرتبہ پاکستانی فورسز کی جانب سے جبری لاپتا کیئے گئے بلوچ نوجوان ممتاز بلوچ کی آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں، ساری دنیا کے تمام انسانی حقوق کے ادارے نوٹس لیں

اے این پی کے مرکزی رہنماء خان زمان کاکڑ نے لکھا کہ ممتاز بلوچ نامی اس نوجوان کو تیسری بار جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے۔ تشدد کے معمولات نے صرف بلوچ نوجوانوں میں بیگانگی اور علیحدگی کے احساس کو مزید تیز کیا ہے اور ریاست اور بلوچستان کے درمیان سماجی معاہدے کو پہلے ہی بری طرح متزلزل کر دیا ہے۔ جبری گمشدگیاں کسی کے لئے بھی اور کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے۔

بلوچ وائس فار مسنگ پرسنز کے جنرل سیکرٹری اور لاپتہ دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی دین بلوچ نے اپنی ٹویٹ میں لکھا ہماری ماؤں اور بہنوں کو اس جبرِمسلسل اور اجتماعی اذیت سے آزاد کرکے ہمارے پیاروں کو بازیاب کیاجائے۔

بلوچ ایکٹوسٹ و بلوچ وائس فار جسٹس کے رہنماء لطیف بلوچ نے لکھا ہے کہ بلوچستان میں ایک انسانی المیہ جنم لے چکا ہے، ہزاروں انسان جبری لاپتہ کئے گئے ہیں، انسانی حقوق کی تنظیمیں ممتاز بلوچ سمیت تمام لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے موثر کردار ادا کریں۔

ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کے چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ سمیت دیگر نے کمپین میں حصہ لے کر ممتاز بلوچ کی فی الفور باحفاظت بازیابی کا مطالبہ کیا۔