لاپتہ راشد حسین کیلئے سیمینار میں شرکت کرکے جبری گمشدگی کے خلاف آواز اٹھائیں۔ بی وائی سی

104

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے لاپتہ سیاسی کارکن راشد حسین کی جبری گمشدگی اور اہلخانہ کی جانب سے کوئٹہ میں ہونے والے سیمینار کی حمایت میں جاری کردہ اپنے ایک بیان میں کہا کہ راشد حسین کو آج سے پانچ سال قبل دبئی سے غیر قانونی طور پر اٹھا کر پاکستان کے حوالے کیا گیا جبکہ پاکستان حوالگی کے بعد ان کے حوالے سے کوئی اطلاعات نہیں، اہلخانہ ان کی جان سلامتی تک حوالے سے لاعلم ہے جو کسی بھی قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ لاپتہ راشد حسین اس وقت غیر قانونی طور پر قید و بند کی صوبتیں برداشت کر رہے ہیں اور ریاستی ادارے انہیں منظر عام پر لانے کے بجائے غیر قانونی طور پر لاپتہ کر چکے ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ راشد حسین کو لاپتہ ہوئے تقریباً 5 سال گزر چکے ہیں۔ اس دوران لواحقین بلخصوص لاپتہ راشد حسین کی ماں نے بلوچستان سمیت پاکستان بھر میں احتجاج و مظاہرے ریکارڈ کرائے ہیں لیکن المیے کی بات ہے کہ غیر قانونی جبری گمشدگی کے باوجود انہیں اب تک منظر عام پر لایا نہیں جا رہا ہے۔ احتجاجی دھرنوں اور مظاہروں سمیت لواحقین نے تمام قانونی راستے اپنائے ہیں جس میں عدالت کے دروازے کھٹکھٹانا ہو یا حکام بالا تک اپنی فریاد پہنچانا لیکن ان تمام قانونی اور انسانی راستوں کو اپنانے کے باوجود ایک بے گناہ شخص کو زندان کی نذر کر دیا گیا ہے جو بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو واضح کرتی ہے۔ لاپتہ افراد کے لواحقین کا بارہا اصرار رہا ہے کہ اگر ان کے پیارے کسی جرم یا غیر قانونی سرگرمی کا حصہ ہیں تو انہیں اپنی عدالتوں میں پیش کرکے سزا دی جائے لیکن بدقسمتی سے ریاست جبری گمشدگی کو بطور ہتھیار استعمال کرکے بلوچستان کو یرغمال کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔

بیان کے آخر میں بی وائی سی نے بلوچ عوام سے کوئٹہ میں ہونے والے سیمینار میں شرکت کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ راشد حسین کی جبری گمشدگی کے خلاف لواحقین کی جانب سے رواں ماہ 15 اکتوبر بمقام شال (کوئٹہ) پریس کلب ایک سیمینار کا انعقاد کیا جا رہا ہے جس میں راشد حسین کی جبری گمشدگی اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے مختلف طبقائے فکر کے لوگ اپنے خیالات کا اظہار کرینگے۔ تمام انسان دوست اور بلخصوص بلوچ عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ لاپتہ راشد حسین کے اہلخانہ کی جدوجہد میں ان کا ساتھ دے کر ان کی آواز بنیں۔