امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے جمعے کے روز بتایا کہ امریکہ نے عراق اور شام میں اپنے اہلکاروں کی حفاظت کے مقصد سے شمالی شام میں ”درست ہدف بنا کر دفاعی نوعیت کے حملے” کیے ہیں اور یہ کارروائی ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا گروپوں کے حالیہ حملوں کے جواب میں کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ”امریکی افواج کے خلاف ایرانی حمایت یافتہ حملے ناقابل قبول ہیں اور انہیں روکنا بہت ضروری ہے۔ ایران ہماری افواج کے خلاف ان حملوں میں اپنا ہاتھ چھپانے کے ساتھ ہی اپنے کردار سے انکار کرنا چاہتا ہے۔ ہم انہیں اس کی اجازت نہیں دیں گے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ اگر امریکی افواج کے خلاف ”ایران کی پراکسیز” کی جانب سے حملے ہوئے، تو اس طرح کی مزید کارروائیاں کی جائیں گی۔
امریکی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ان امریکی حملوں کا، ”اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری تنازعہ سے کوئی لینا دینا نہیں تھا اور یہ کارروائی ایک بالکل الگ معاملہ ہے۔ ہمارے نقطہ نظر میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔”
پینٹاگون کی وضاحت
واشنگٹن میں امریکی وزیر دفاع کے ان بیانات کے فوری بعد پینٹاگون نے بھی ان حملوں سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ان حملوں میں ایرانی فورسز کے زیر استعمال ہتھیاروں اور گولہ بارود کو ذخیرہ کرنے والے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔
اس نے بتایا کہ اس کے ایف سولہ جنگی طیاروں نے عراق کی سرحد پر واقع ایک قصبے ابو کمال کے قریب مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے چار بچے حملہ کیا۔ تاہم ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ آیا ان حملوں میں کوئی جانی نقصان بھی ہوا ہے، یا نہیں۔
پینٹاگون کے حکام نے یہ بھی کہا کہ حملوں کا مقصد ایران کو ایک واضح پیغام دینا تھا۔ ایک اہلکار نے کہا کہ ”ہم جو چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ ایران کو بہت مخصوص اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور اسے چاہیے کہ وہ اپنی ملیشیاؤں اور پراکسیوں کو اس میں ملوث ہونے سے باز رکھے۔”
اس سے قبل وائٹ ہاؤس نے بتایا تھا کہ صدر جو بائیڈن نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے نام ایک خط لکھا تھا، جس میں انہوں نے مشرق وسطیٰ میں امریکی اہلکاروں کو نشانہ بنانے کے خلاف ایران کو متنبہ کیا تھا۔
امریکی صدر کی جانب سے ایران کے مذہبی پیشوا کے نام مکتوب کے ذریعے اس طرح پیغام بھیجنا ایک غیر معمولی بات ہے۔
حملوں میں متعدد امریکی فوجی اہلکار زخمی ہوئے
پینٹاگون کے مطابق حالیہ دنوں میں عراق اور شام میں اس کے فوجی اڈوں پر ڈرون اور راکٹ حملوں میں اب تک کل 21 امریکی فوجی زخمی ہو چکے ہیں اور انہیں معمولی چوٹیں آئی ہیں۔
البتہ بیان میں یہ بھی کہا گیا ایک مقامی ٹھیکیدار ممکنہ حملے سے پناہ لینے کی کوشش میں ”دل کا دورہ پڑنے سے” ہلاک ہوگیا۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان تنازع شروع ہونے کے بعد سے امریکی اور اتحادی فوجوں پر عراق میں کم از کم 12 اور شام میں چار بار حملے کیے جا چکے ہیں۔
امریکی حکام ان حملوں کی ذمہ داری خطے میں سرگرم ایرانی پراکسی گروپوں پر عائد کرتے ہیں۔ الزام ہے کہ ایران لبنان میں حماس اور حزب اللہ دونوں کو ہتھیاروں کے ساتھ ہی رقم بھی فراہم کرتا ہے۔
امریکہ کے تقریباً 900 فوجی شام میں جبکہ 2500 پڑوسی ملک عراق میں تعینات ہیں۔ جمعرات کے روز امریکہ نے کہا تھا کہ وہ خطے میں مزید 900 فوجی بھیج رہا ہے۔