سانحہ سکرنڈ: سرکاری مؤقف میں تیسری بار تبدیلی

206

یہ جمعرات کا دن تھا اور 60 سالہ جنت جلبانی اور ان کے شوہر اللہ داد ابھی مشکل سے گھر کے کام سے فارغ ہوکر سستانے بیٹھے تھے کہ اچانک وردی میں ملبوس رینجرز اہلکار ان کے گحرگھس آئے۔ رینجرز کی اچانک آمد سے پیدا ہونے والی حیرت سے وہ نکل ہی نہیں پائی تھیں کہ ان کے تینوں بیٹوں کو اہلکار گھر سے باہر لے گئے۔

جنت جلبانی کا تعلق ضلع نواب شاہ کی تحصیل سکرنڈ میں کچے کے علاقے کے قریب واقع ماڑی جلبانی گوٹھ سے ہے۔ ٹوٹی پھوٹی سندھی اور سرائیکی زبان میں بات کرتی مائی جنت جلبانی نے بتایا کہ انہوں نے رینجرز اہلکاروں کی منت سماجت کی کہ ان کے بیٹوں کو کچھ نہ کہو مگر انہوں نے ایک نہ سنی اور ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے بچوں پر فائرنگ کی گئی۔

جنت کا مؤقف ہے کہ ان کے بیٹوں کے پاس کوئی ہتھیار تھا اور نہ ہی وہ کسی غلط کام میں ملوث تھے۔

فائرنگ کے اس واقعے میں جنت بی بی کے دوبیٹے نظام الدین اور امام بخش موقع پر ہی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے جب کہ ان کے شوہر اور تیسرا بیٹا امام الدین فائرنگ میں زخمی ہوئے۔

جنت بی بی نے مزید بتایا کہ ان کے تینوں بیٹے اور شوہر وڈیرے کی زمین پر کھیتی باڑی کرتے تھے جس سے گھر کی گزر بسر ہوتی تھی سکرنڈ کے گوٹھ ماڑی جلبانی میں جمعرات 31 ستمبر کو پیش آنے والے اس واقعے میں مجموعی طور پر چار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ مکینوں کا الزام ہے کہ گاؤں میں کی گئی کارروائی میں بے گناہ لوگوں کو قتل کیا گیا جن کے خلاف کوئی الزام نہیں تھا اور وہ غیر مسلح تھے۔

تحقیقاتی کمیٹی پر عدم اعتماد

مبینہ طور پر سندھ رینجرز کے اہلکاروں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ نے واقعے کی تحقیقات کے لیے قائم کردہ انکوائری کمیٹی پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے معاملے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

متاثرہ خاندان کی نمائندگی کرنے والے آچر جلبانی ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سرکٹ ہاؤس میں کمیٹی کے سامنے پیش ہونے والے یونین کونسل چئیرمین عمران جلبانی اور دیگر علاقہ معززین نے کہا ہے کہ انہیں انکوائری کمیٹی کی کارروائی پر کوئی اعتماد نہیں۔

قتل ہونے والے چاروں افراد کے اہلِ خانہ میں سے کوئی بھی انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوا۔ البتہ علاقہ معززین نے واقعے کی شفاف عدالتی تحقیقات اور اس میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

دوسری جانب کمشنر حیدرآباد ڈویژن خالد حیدر شاہ کی سربراہی میں قائم انکوائری کمیٹی اپنی تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہے۔کمیٹی نے اب تک انچارج سی آئی اے نواب شاہ مقصود رضا منگنھار، ایس ایچ او بی سیکشن طفیل بھٹو اور ایس ایچ او وومن تھانہ مریم بھُٹ کا بیان ریکارڈ کرلیا ہے۔

جس تھانے کی حدود میں یہ واقعہ پیش آیا، اس تھانے کی پولیس رینجرز کے مذکورہ آپریشن سے لاعلم تھی۔ انکوائری کمیٹی نے اسی ہفتے رپورٹ مکمل کرکے وزیر اعلیٰ کو پیش کرنا ہے۔

سکرنڈ واقعے پر سرکاری مؤقف میں تبدیلی

پولیس کا مؤقف دیہاتیوں کے مؤقف سے یکسر مختلف دکھائی دیتا ہے۔ پولیس نے انچارج سی آئی اے مقصود منگنھار کی مدعیت میں اس واقعے کی ایک اور ایف آئی آر درج کرلی ہے۔

نئی ایف آئی آر میں لیاقت جلبانی، رجب جلبانی، غلام رسول اور دیگر نامزد ملزمان سمیت 250 افراد کو اس میں شامل کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ رینجرز اور پولیس نے خفیہ اطلاع پر ماڑی جلبانی گوٹھ میں آپریشن کیا تھا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ یہ آپریشن کالعدم تنظیم سے وابستہ افراد کی موجودگی کی اطلاع اور لیاقت جلبانی نامی شخص کے پاس دھماکہ خیز مواد مواد کی موجودگی کی اطلاع پر کیا گیا تھا جو دہشت گردی کی کسی بڑی واردات کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔

ایف آئی آر کے متن کے مطابق ابھی لیاقت جلبانی کے گھر کی تلاشی جاری تھی کہ دو ڈھائی سو کے قریب دیہاتیوں نے آکر پولیس اور رینجرز کو گھیر لیا۔ جن کے ہاتھوں میں کلاشنکوف، سلاخیں اور لاٹھیاں تھیں۔

پولیس کے بقول گاؤں والوں نے بعض رینجرز اہلکاروں کو موبائل وین سے اتار کر پکڑ لیا۔ اس دوران غلام رسول، موریو جلبانی، منیر جلبانی اور دو نامعلوم افراد کے ہاتھوں میں کلاشنکوف موجود تھیں اور انہوں نے رینجرز اہلکاروں کو قتل کرنے کی غرض سے فائرنگ کی جس سے وہاں موجود افراد انہی کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے اور اس میں رینجرز کے بعض جوان زخمی بھی ہوئے۔

ایف آئی آر کے مطابق رینجرز نے لوگوں کو منتشر کرنے کے لیے فائرنگ کی اور وہاں موجود ایک شخص کی ٹانگ میں گولی لگی۔

واضح رہے کہ واقعے پر سرکار کے مؤقف میں کئی بار تبدیلی آچکی ہے۔ پہلے صوبائی وزیرِ داخلہ نے میڈیا کو بتایا تھا کہ یہاں خودکش بمبار کی اطلاع پر کارروائی کی گئی اور اس دوران مقابلے میں چار افراد مارے گئے۔ کچھ ہی دیر کے بعد وزیر داخلہ بریگیڈئیر ریٹائرڈ حارث نواز نے ایک ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ آپریشن کے دوران رینجرز پر حملہ کیا گیا اور انہوں نے اپنے بچاؤ میں فائرنگ کی جس سے ہلاکتیں ہوئیں۔

تاہم اب پولیس کی جانب سے درج ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ واقعے میں ہلاک ہونے والے افراد اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے ہیں۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مطلوب 60 سالہ رجب جلبانی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ فروری 2019 میں بھی گرفتار ہوکر ضمانت پر رہا ہوا تھا۔

رینجرز لیاقت جلبانی اور رجب جلبانی کو دوبارہ گرفتار کرنا چاہتی تھی۔ تاہم اس میں کامیابی نہ مل سکی۔

انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان نے اپنے ایک بیان میں سکرنڈ میں سیکیورٹی آپریشن کے دوران ہلاکتوں کی آزادانہ طور پر تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

کمیشن کا کہنا ہے کہ اگرچہ حکومت کو صوبے میں امن و امان کو بہتر بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرنا چاہئیں، لیکن کسی بھی طرح ماورائے عدالت قتل کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔