حب: صنعتوں سے مقامی مزدوروں کو نکالنے کا سلسلہ جاری

386

کراچی سے متصل بلوچستان کے صنعتی شہر حب میں قائم صنعتوں سے مقامی مزدوروں کو نکالنے کا سلسلے جاری ہے ۔

ایک اندازے کے مطابق حب میں 150 سے زائد صنعتیں پیداواری عمل جاری رکھے ہوئے ہیں ۔

بتایا جارہا ہے کہ صنعتوں میں گذشتہ دو دہائیوں سے ٹھیکداری نظام مضبوط ہوچکا ہے یہاں مزدوروں کے مسیخے بننے والے بھی ٹھیکداری نظام کو مضبوط کرنے میں سہولتکار رہے ہیں۔

مقامی مزدوروں کے مطابق یونین سازی کے عمل کی حوصلہ شکنی چند ٹکوں کی خاطر متعلقہ سرکاری محکمے اور مزدوروں کے مہربان اور مسیخے کرتے رہے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ مزدور کا استحصال صنعتی میجمنٹ اپنا حق سمجھ کر کرتی رہی اور صورتحال یہاں تک پہنچی کہ کسی بھی مزدور کو ملازمت کا تحفظ ہے اور نہ ہی ان کی آئینی و قانونی مراعات و سہولیات انہیں دی جارہی ہیں بعض صنعتیں اب بیگار کیمپ بن چکی ہیں۔

مزدور بتاتے ہیں کہ صنعتی مزدور کے استحصال کے ساتھ مزدوروں کے نمائندے کی مہربانیوں اور ٹھیکداروں کی حرص زر کے سبب مقامی مزدور کے لیے صنعتوں میں روزگار کے دروازے بند کردیے گئے ہیں بعض صنعتیں اب مقامی مزدور کو ملازمت اعلانیہ طور پر نہیں دیتے ہیب جس سے انتظامیہ حکومت سب باخبر ہیں مگر سب بے بس اور بھتہ خوری کی وجہ سے منہ بند کئے ہوئے ہیں ۔

مقامی صحافی کے مطابق نگران صوبائی وزیر صنعت بلوچستان پرنس احمد علی بلوچ کے دورہ حب کے موقع پر ان کی توجہ مقامی مزدوروں کو صنعتوں میں روزگار نہ دینے کی جانب مبذول کرواتے ہوئے درخواست کی تھی کہ ڈپٹی کمشنر حب صنعتی مزدوروں کی فہرستیں طلب کرے تاکہ معلوم ہوسکے کہ کتنے مقامی مزدور صنعتوں میں مزدوری کررہے ہیں اس کے ساتھ ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں روزگار کمیٹی قائم کرنے کی بھی گذارش کی تھی مگر اس دن کے بعد سے اب تک خاموشی بتلا رہی ہے کہ معاملہ مٹی پاؤ تک پہنچ گیا۔

مقامی لوگ شکایت کرتے ہیں کہ حب کی صنعتوں میں مقامی مزدوروں کو روزگار نہیں دیا جارہا جبکہ پہلے کے دور میں مقامی مزدور لگے وہ نکالے جارہے ہیں کینڈی لینڈ کے ساتھ منسلک Cool Max international کے پانچ مقامی مزدور نکالے گئے۔ معاملہ اے سی آفس اور لیبر ویلفیئر آفس پہنچا۔ لیبر ویلفیئر کے افسران نے معاملے کو حل کی طرف پہنچایا کہ مزدور دشمن مشرف نے انٹری ماری اور کمپنی انتظامیہ کو مزدور کا معاملہ حل نہ کرنے کے حوالے سے قائل کیا مزدور بیروزگار ہیں مشرف مزے میں ہیں۔

بتایا جارہا کہ گیٹرون کمپنی میں ٹھیکداری کو مزدوروں کو کینٹن کی لائن میں اونچی آواز میں بات کرنے پر سیکورٹی گارڈ فقیر داد نے نوکری سے نکلوا دیا ہے۔

مزدور شکایت کرتے ہیں کہ اب بدمعاشی کی اس آخری حد تک پہنچے چند افراد کے سامنے حکومت بلوچستان، انتظامیہ اور متعلقہ سرکاری محکمے بے بس ہیں۔