بی این پی کے خوشنما نعرے زمینی حقائق کے آئینے میں ( پہلی قسط ) ۔ خالد بلوچ

430

بی این پی کے خوشنما نعرے زمینی حقائق کے آئینے میں۔ (پہلی قسط ) 

تحریر : خالد بلوچ (سابق وائس چیئرمین بی ایس او)

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کے عوام نے ہر کسی کو لیڈر بنا کر مسند دیا لیکن 7 ہزار سال کے تاریخ کے دعوے دار بلوچ قوم کو آج تک ایک ایسا سیاسی ادارہ نہیں مل سکا جس میں خود احتسابی، تنظیمی مرکزیت یا تنقید اور تحقیق کے بنیاد پر پالیسی و فیصلے کرنا ہو ۔ بی این پی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل اچھے نیت و سوچ کے قوم پرست رہنما ہے ۔انکے ایمان داری پر کسی کو شک نہیں نہ ہی سردار عطاء اللہ مینگل و انکے خاندان کی قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔

آتے ہیں کہ بی این پی نے جسطرح چھ نکات قبل از چھ نکات پھر چھ نکات یا پی ڈی ایم کی جانب سیاسی سفر کیا تو اس میں کیا حاصل ہوا محض رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لئے نعرے یا عوام کو بتی کے پیچھے لگا کر مقاصد حاصل کئے گئے۔سب سے خوشنما نعرہ جو بلوچ لاپتہ افراد کے بازیابی کا تھا ۔جس پر آئندہ بھی الیکشن لڑنے کا اعلان ہوا ۔

لاپتہ افراد کی تاریخ و پس منظر کے بحث میں جائے بغیر کیا لاپتہ افراد کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے، دو طرفہ ایکسٹریمز جنکے بیچ میں لاپتہ افراد کا مسئلہ ہے۔ کیا اس پرکبھی پیشرفت کروانے کی کوشش کی گئی کیا ریاست یا بلوچ علحیدگی پسندوں کو بامقصد مذاکرات پر آمادہ کیا گیا ۔جہاں بی این پی اس بحث میں بالکل پڑھنا ہی نہیں چاہتا تو کیا کبھی بی این پی نے لاپتہ افراد کے لئے صرف سردار اختر مینگل کے تقاریر کے علاوہ کوئی سرگرمی دکھائی لاپتہ افراد کی جنگ صرف اور صرف انکے لواحقین کو متحرک کرکے لڑی جاسکتی یے اور اسکو نیشنل و انٹرنیشنل فورمز پر اجاگر کرکے بھر پور انداز میں آگے بڑھایا جاسکتا ہے کیا اس حوالے سے کوئٹہ مسنگ پرسن کیمپ پر تصویر کشی کے علاوہ کسی بھی ضلع،تحصیل،یونین کونسل سطح پر پارٹی کی کوئی ڈیٹا یا تحقیق ثابت ہوسکی ہے کہ کتنے مسنگ پرسن لواحقین کے ساتھ بی این پی کے کتنے اجلاس ہوئے کس ضلع میں لاپتہ افراد پر کانفرنس لواحقین کو متحرک و عام عوام کو اس میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی ۔

لاپتہ افراد کے بعد جس ایشو پر بی این پی سب سے زیادہ شور اور تقاریر کرتی آرہی یے۔ وہ ڈیتھ اسکواڈ کا ایشو ہے، کیا بی این پی کبھی اس بحث میں جانے کی کوشش کی کہ انسرجنسی و کاونٹر انسرجنسی دنیا کی تاریخ کی سب سے اہم حقیقت ہے کہ کسی بھی انسرجنسی کو کاونٹر کرنے کے لئے وہاں کس طرح کا جوابی وار کیا جاتا یے یا بی این پی ان دونوں چیزوں سے بلوچستان میں اپنے آنکھیں بند کرکے آگے بڑھ رہی ہے ۔اس ایشو پر جسکو ڈیتھ اسکواڈ کہاجاتا ہے کیا بی این پی نے کبھی ضلع،تحصیل سطح پر کام کیا کہ ڈیتھ اسکواڈ کس سطح پر کہاں کام کررہی ہے اور وہاں علاقے کے لوگوں کو اس پر کیسے متحرک کرنا چاہیے اور ہاں کیا ڈیتھ اسکواڈ کی بنیاد جو کہ لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف بندوق اٹھانے پر مجبور کرتی یے پھر یہی بندوق کا سلسلہ آگے بڑھ کر مزید خراب ہوکر ڈیتھ اسکواڈ کی شکل اختیار کرتی ہے تو کیا بی این پی اس جڑ کو ڈھونڈنے کی کوشش کی یا اس کو حل کرنے پر کام کیا ۔ڈیتھ اسکواڈ پر لوگوں کو دھکیلنے کی ساری وجہ قبائلی جھگڑے ہے کیا انکو حل کرنے پر کبھی توجہ دی گئی ۔

بی این پی نے ان دو ایشوز کے علاوہ جس ایشو پر تقاریر کے زریعے زور دینے کی کوشش کی وہ تھا بلوچستان میں بیروز گاری کا خاتمہ یا اسکے لئے اقدامات، وفاقی آسامیوں پر صحیح تعداد میں یہاں کے لوگوں کو ترجعی دینا ۔بی این پی کے لئے عرض ہے کیا نوجوانوں کو متحرک کئے بغیر آپ کبھی نوجوانوں کے حقوق لے سکتے ہو جب اپنے سیاسی اداروں کے اندر نوجوانوں کے لئے گنجائش یا فورم نہیں جب نوجوان یا طلباء کو آپس میں لڑا کر انکو ہی کمزور کرنے پر پارٹی خاموش رہے تو کیا اس کرپٹ نظام سے صرف ایک اسمبلی تقریر کے زریعے نوجوانوں کے حقوق لئے جاسکتے ہیں۔ بیروز گار تعلیم یافتہ نوجوانوں کو متحرک کرنے کے لئے پارٹی کے ساتھ کیا پروگرام رہی یے کہ نوجوان مختلف فورمز پر متحرک ہوکر کرپشن و آسامیوں کے خرید و فروخت کے خلاف اٹھ کر کردار دا کرے قوموں کو راہ دینا سیاسی جماعتوں کی کام ہوتی یے کیا کبھی اس پر نوجوانوں کو پوچھا گیا کہ کس محکمے میں آسامیوں کی خرید و فروخت ہوئی ہے کس محکمے میں کسکے ساتھ ظلم کیا کبھی پارٹی نے اضلاع و تحصیل سطح پر اس پر کام کرنے کی کوشش کی گئی اس پر بھی سردار اختر جان مینگل کے ایک تقریر سے پارٹی بری الذمہ ہوسکتی ہے کیا پارٹی نے کبھی عام بلوچ نوجوان جو پڑھا لکھا نہیں ہے اسکے لئے بارڈر ٹریڈ کے علاوہ کچھ سوچا کیا گلہ بانی،لائیو اسٹاک یا دوسرے شعبوں میں پارٹی عام بلوچ کو متحرک کرتا نظر آیا ۔

بی این پی کی جام کمال سے جو لڑائی ہوئی یا قدوس بزنجو سے دوستی اسکی بنیاد PSDP یا ترقیاتی اسکیمات تھی ۔کیا بی این پی جواب دے سکتی یے کہ کسی ترقیاتی اسکیم سے پارٹی نے کوئی کمیشن یا پرسنٹیج نہیں لی کیا مخصوص ایم پی ایز تک کے فنڈ پر 20 پرسنٹ کمیشن کا مطالبہ اپنے اضلاع کے ورکروں سے مطالبہ نہیں کیا گیا کہ ایک مخصوص ایم پی اے کے زریعے من پسند اسیکمات نہ ڈالنے پر اسے پارٹی سے الگ کرکے ووٹ بیچنے کا الزام لگایا نہیں گیا ۔ کیا مخصوص نشست پر اسکیمات کے خلاف مختلف اضلاع کی احتجاج نہیں ہوئی ۔

اسکے علاوہ کیا پارٹی کے اسکیمات محض روڈ یا ٹیوب ویل سے نکل کر انسانی ترقی،علم ادب سیاسی اداروں کی ترقی کسی یونیورسٹی کالج کے لئے مخصوص فنڈز میں مختص ہوئے کہ نہیں انکی لسٹ کا کیا پارٹی کبھی جواب دے سکتی ہے کہ نہیں ۔

پارٹیوں کے لئے پاپولر رائے عامہ کے زریعے الیکشن کا جیتنا اہم و کامیابی ہوسکتی ہے لیکن اسکے بعد کی کارکردگی پر بحث کرنا و اس پر کردار ادا کرکے فیصلے کرنا بھی ایک کامیاب سیاسی جماعت کی ضرورت ہوتی ہے محض لوگوں کو نعرے دے کر عمل سے دور کرنا یا کارکردگی پر احتساب نہ ہونے کی وجہ سے ہی بلوچ قوم کو کوئی ادارہ نہ مل سکی کہ وہ اس پر اعتماد کرسکے یہی وجہ ہے قوم کی اعتماد ہمیشہ شخصیات پر رہی ہے جبکہ سخصیات پر تنقید سے ضد اور انا کے کیفیت کے علاوہ کچھ نتیجہ نہیں نکلا ہے ۔

بی این پی کے آئندہ دور کے لئے ضروری ہے کہ کم از کم کارکنوں کے شکایات سننے کے لئے ایک باقائدہ میکنزم کی ضرورت یے جسکے بعد احتساب و سزا کی ضرورت و اس سے پھر کارکنوں کو آگاہ کیا جانا چاہیے اور ہاں کبھی اگر کسی ایشو پر پارٹی موقف لیتی ہے تو اس پر بطور پارٹی بی این پی کی اپنی کتنی کام رہی ہے جسکے بنیاد پر پارٹی کسی اور کو عمل درآمد کرنے پر مجبور کرسکے جب اپنے اپنے اسکیمات سے کرپشن ختم نہیں کرسکتی ،جب نوکری کی سفارش کرتے وقت اپنے کسی رشتہ دار کی نام لسٹ میں ڈالا جاتا ہے ،جب نوجوانوں کو میرٹ پر نوکری دینے کا نعرہ لگاتی ہو لیکن اپنے کسی ادارے میں عہدے داروں کے چناو کے لئے میرٹ نہ ہو تو پارٹی مزید تنزلی کی طرف جائے گا نہ کہ نظریے کی ۔

جاری ہے


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔