بی ایس او کا تئیسواں قومی کونسل سیشن بنام “دفاعِ مادر وطن“ بیاد ”میر عبدالعزیز کرد، شیرو مری، شہید حمید شاہین” جنوری میں منعقد ہوگا

132

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی چیرمین چنگیز بلوچ نے تنظیم کے کابینہ اراکین کے ہمراہ کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بی ایس او کے تئیسویں قومی کونسل سیشن کا اعلان کردیا۔ انہوں نے قومی کونسل سیشن کو مادر وطن کے نام منسوب کیا جبکہ عظیم قومی رہنماء میر عبدالعزیز کرد، میر شیر محمد مری اور شہید حمید شاہین کی یاد میں سیشن کو نامزد کیا۔

چیرمین چنگیز بلوچ نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا آج کے عہد میں سرمایہ دارانہ نظام ہر گزرتے لمحے کے ساتھ نٸے بحرانات کا شکار ہورہی ہے اور اپنے ان داخلی بحرانات کا سدباب کرنے کےلیے اس سفاک نظام کے چیمپیٸنز کو مسلسل نٸی جنگیں چھیڑنی پڑ رہی ہیں تاکہ وہ محکوم اقوام کے وطن، وساٸل، شناخت، مارکیٹ، اور معیشت پر قابض ہو کر اپنے اقتدار کو کوٸی سہارا دے سکیں۔ یہ سامراجی طاقتیں دوسری عالمی جنگ کے بعد سے لے کر اب تک مسلسل جنگوں میں رہی ہیں اور آج بھی جنگی معیشت ایک بہت منافع بخش کاروبار ہے۔ اسی تناظر میں بلوچ وطن بھی سامراجی جنگوں کے گھیرے میں ہے، تمام تر عالمی قوتیں اپنے سامراجی عزائم کیلئے اس خطے میں جنگی سرمایہ کاری کررہی ہیں جو مستقبل قریب میں مذید تباہی کا باعث بنیں گی۔
انہوں نے کہا اس سامراجی جنگ کے تناظر میں بلوچ وطن کا تحفظ ہمارا اولین مقصد ہے، عالمی پراکسی جنگوں سے لے کر استحصالی پراجیکٹس کے ذریعے بلوچ قوم کو مذید غلامی میں دھکیلنے کی کوششیں ہورہی ہیں جو ایک قومی جڑت اور شعوری مزاحمت کی مانگ کرتی ہے۔ آج پہلے سے کہیں زیادہ ہمیں قوم کی سیاسی تربیت پر زور دینا ہوگا اور ایک عوامی فرنٹ کی تعمیر کو ممکن بنانا ہوگا، جو ہر بلوچ کو ان حالات میں اپنے تحفظ کی خاطر منظم کرسکے۔

انہوں نے کہا سامراجی قوتوں کی آپسی رسہ کشی اور جنگ و جدل میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے ہمیشہ محکوم اقوام و کمزور طبقات ہوتے ہیں، آج اگر یوکرین میں امریکہ و نیٹو سمیت عالمی استعماری اسلحہ ساز یوکرین کے عام عوام کے خون سے دَھن دولت سمیٹ رہے ہیں تو وہیں پر مشرق وُسطیٰ میں بھی ایک بار پھر محکوم فلسطینیوں کی جارحانہ نسل کشی کی جا رہی ہے اور اس پورے خطے میں ایک نٸی جنگ کےلیے بھرپور تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں۔ عالمی حالات بہت تیزی سے کروٹ لے رہے ہیں، سامراجی طاقتوں کی آپسی رسہ کشی اور سرمایہ دارانہ نظام کی زوال پذیری نے ملٹی پولر سیاسی تناظر کو جنم دیا ہے جس کا بنیادی مظہر مسلسل جنگوں کی صورت میں ہمارے سامنے آرہا ہے۔ ایک طرف دنیا کی سپر پاور مقامی سطح پر شدید ترین بُحرانات کا شکار ہے وہی اربوں ڈالر جنگوں میں جھونکے جا رہا ہے اور سامراجی قوتیں کسی بھی صورت میں اپنی بالادستی ثابت کرنے اور منوانے کےلیے کوشاں ہے۔ مگر آج کا عہد جہاں چین و روس جیسے سامراجی طاقتوں کے ابھار کا عہد ہے تو وہیں پر عالمی سطح پر رَد استعماری عوامی جذبات کا بھی عہد ہے، اسی طرح لاطینی امریکہ بارہا اس سامراج وادی اور سرمایہ دارانہ تسلط کے خلاف نکل پڑا ہے۔ لولا ڈسلوا، پیٹرو گستاوو، گیبریٸل بورک جیسے سیاستدانوں کا ابھار و اقتدار کا حصول اسی سرمایہ دارانہ مخالف سلسلے کی کڑی ہے۔
سامراج کی آپسی رسہ کشی اور گٹھ جوڑ کے اس پورے سلسلے میں محکوم قومیتوں کی بقا و آزادی کو مذید چیلنجز کا سامنا ہوگا۔ سامراجی طاقتوں کے اس بٹوارے نے محکوم قومیتوں کی آزادی کے عمل و تحریک کو براہ راست متاثر کیا ہے۔ جب کہ اقوام متحدہ نامی ادارہ اب تک مکمل ناکام ہو چکا ہے اور اس سے اب کوٸی امید لگاٸے رکھنا، یا لبرل انسانیت پسندی کے بھروسے رہنا محکوم قومیتوں کے ساتھ ایک سنگین دھوکہ و غداری کے مترادف ہے۔

چیرمین نے کہا بلوچستان نہ صرف ایک کالونی کے طور رکھا گیا ہے بلکہ یہاں پر اپنی نوآبادیاتی عزاٸم کی تکمیل کےلیے مسلط حاکم نے تمام تر سیاسی مزاحمتی انسانی آزادیوں پر قدغن لگا کر مذہبی انتہاپسندوں، ڈیتھ اسکواڈی لشکروں اور مصنوعی سیاستدانوں کے پورے کے پورے لشکر تیار کیے ہیں، طلبان کا تین ولایتیں ڈیکلیٸر کرنا، لشکر جھ۔نگوی کی مضبوطی، انتہا پسند مذھبی مدارس کا پورا منصوبہ بند جال اور دا عش خرا سان کی جارحانہ کاررواٸیاں اس تباہی کی نشانیاں ہیں۔ جو کسی بھی وقت مذید متشدد شکل میں سامنے آسکتی ہیں۔
بدقسمتی یہ ہے کہ اس پورے منظرے نامے میں مادر وطن کی حفاظت کےلیے پارلیمانی و غیرپارلیمانی سیاسی جماعتوں کی طرف سے کوٸی سیاسی مزاحمت و تیاری دیکھنے کو نہیں ملتی۔
دوسری طرف بلوچستان میں تعلیمی ادارے نہ ہونے کے برابر ہیں اگر کچھ گِنے چنے ادارے بھی ہیں تو ان پر کرپٹ و نا اہل انتظامیہ مسلط کرکے انہیں مکمل طور پر ملٹراٸیز کیا جا چکا ہے۔ تعلیمی اداروں میں طلبا یونینز پر پابندی از خود آمریت اور آمرانہ نفسیات کی عکاسی ہے۔ لیکن طلبا سیاست پر اس کے علاوہ بھی شدید ترین بندشیں عاٸد کر دی گٸی ہیں۔ تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولیات کا فقدان، نیو لبرل پالیسی کے تحت ان کی پراٸوٹائزیشن، اور فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ طلبا سے تعلیم مکمل طور پر چھیننے کے مترادف ہے۔ بلوچ طلبا پر اضافی جبر یہ ہے کہ انہیں ایک منظم منصوبے کے تحت نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان کی زندگی و کیریٸر کو خطرے میں ڈال کر انہیں جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

چیرمین چنگیز بلوچ نے کہا بی ایس او نے نہ پہلے کبھی کسی بیرونی قوت کو بلوچ دھرتی پر قبول کیا ہے نہ ہی آئندہ کرے گی اور ان بیرونی قوتوں کے خلاف عوامی شعور کو ابھارنے کا کام کرے گی۔ تاکہ کسی بھی ممکنہ صورتحال میں ہم قومی سطح پر اپنی بقا ممکن بنا سکیں۔
آج ہمیں جس سطح کے چیلنجز کا سامنا ہے اس کےلئے ضروری ہے کہ قومی جہد میں شامل تمام اداروں کو آپسی اتحاد پر زور دیتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے۔
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگناٸزیشن ہمیشہ بلوچ طلبا کو شعوری و نظریاتی سیاست سے جوڑنے، ان کے بنیادی حقوق کی جدوجہد کرنے، قومی و طبقاتی جدوجہد کے تاریخی پیرائے میں منظم کرتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے اور تمام تر غیر سیاسی رویوں اور سیاسی عمل پر پابندیوں کے باوجود بی ایس او اپنی اس کاوش میں کامیاب رہی ہے۔

انہوں نے کہا بی ایس او نے قومی غلامی کا سدباب کرنے کےلیے انقلابی کیڈر سازی پر ہمیشہ سے توجہ مرکوز کی ہے اور اس میں کامیابی پائی ہے۔ اس کامیابی کا ضامن انقلابی نظریہ، ساتھیوں کا قومی کاز کے ساتھ کمٹمنٹ، اور اداروں کی باقاعدہ فعالی ہے۔ اسی لیے گزشتہ سیشن کا دور پورا ہونے پر بلوچ اسٹوڈنٹس آرگناٸزیشن اپنا تیٸیسواں قومی کونسل سیشن جنوری 2024 میں بنام ” دفاعِ مادر وطن“ اور بیاد ”میر عبدالعزیز کرد، شیرو مری، اور شہید حمید شاہین “ کے منعقد کرنے جا رہی ہے۔ یقیناً یہ قومی کونسل سیشن بی ایس او سمیت طلبا سیاست اور مجموعی قومی سیاست میں ایک معیاری جست کا باعث بنے گی۔