بلوچ لیڈر ڈاکٹر اللّٰہ نزر بلوچ کے خلاف نوآبادیاتی پروپگنڈے – (حصہ دوم) – گورگین بلوچ

670

بلوچ لیڈر ڈاکٹر اللّٰہ نزر بلوچ کے خلاف نوآبادیاتی پروپگنڈے

تحریر: گورگین بلوچ

(حصہ دوم)

دی بلوچستان پوسٹ

نوآبادیاتی افواجِ پاکستان ایک نئے بنجر علاقے کو جنگی تجربہ و ڈیتھ اسکواڈوں کا آماجگاہ بنانا چاہ رہے تھے، عام لوگوں کو سرنڈر کروا کر میڈیا کو خوب غلط اطلاعات و نشریات کی پھیلانی کی مدد کرلی، کسی کو کمانڈر، کسی کو جنگی سپاہی کا ٹپہ لگاتے، پورے مشکے کے لوگ تنگ ہوئے، کچھ لوگ اپنے آبائی گاؤں اور گجر شہر کو چھوڑنے کیلئے مجبور ہوئے تھے، زیادہ تر الیٹ طبقہ کے لوگ نکل مکانی کرکے دوسرے شہروں میں چلے گئے، مشکے کے ہر جوان و بوڑھا، عورت اور بچے قابض افواج سے تنگ تھے، ہر کسی کو زندگی کی تاریکی کا احساس رہا تھا کہ وہ نوآبادیاتی نظام کی وجہ کس حد تک ناقابل قبول ہے۔ مسلسل کیمپوں کے سزائیں بھگت رہے تھے، ماؤں نے اللّٰہ اللّٰہ کرنے کے سوا اپنے لیئے کوئی سہارا نہیں ڈھونڈا، ہر طرف غم و اداسی کا عالم تھا، خونریزی و افسردگی کا۔ رونجان سے لیکر منگلی تک ان کے فوجی گاڑیوں اور پیدل چلنے والے نظر آتے، ڈر و خوف پھیلانے والے افواجِ پاکستان تشدد کو روڑوں اور دیہاتوں کے نزدیک پر چلنے والے چرواہوں اور عام لوگوں پر آزماتے رہے۔

مزید کہنا جائز ہے کہ یہ دوہزار چودہ کے بعد کا وقت تھا کہ میڈیا میں آزادی پسند دوستوں کے درمیان ریاستی لوگ آکر انہیں ایک دوسرے کے خلاف اکساتے رہے، ایک نئی بحث و مباحثہ چڑ چکا تھا کہ آزادی پسندوں میں سے کئی دوست و سنگت سوچ و بچار کے تحت قابض فوج کی پروپگنڈوں کو کاؤنٹر کر رہے تھے، مشکے میں “امن کارڑز” جس پر پاکستانی جھنڈا اور دو چار نوآبادکاروں کے دستخطات تھے، موٹر سائیکلوں کے الگ کارڑز بنوائے اگر کسی کے پاس نہیں ہوتا تو انہیں موٹر کے ساتھ فوجی کیمپ میں لیجاتے، آہستہ آہستہ یہ اربے ختم ہوئے کہ گجر شہر میں لیویز اور پولیس والوں کو اختیار ملا کہ وہ ہر انسان کو بازار میں کسی دکان کے سامنے موٹر سائیکل کھڑا ہونے کی اجازت نہ دیں بلکہ بازار کے پیچے ایک جگہ بنائی ہے وہاں لیویز والوں کے حوالے کردینے کو کہے۔

اس حربہ کا مطلب موٹر سائیکلوں پر باندھے ہوئے بمبوں سے بچنا تھا لیکن یہ عام طور ایک بیانیہ تھا جس کا تعلق “جبر کا نظریہ” سے تھا۔ امن و امان کا بیانیہ استعمال کرتا رہا۔

سمجھ لیں کہ مشکے ایک ایسا جگہ ہے کہ جہاں پاکستانی فوج نے ہر طرح کی تجربہ آزمائی لیکن کسی حد تک ناکامی کا سامنا کررہا ہے۔ انہوں نے خود تیار کردہ سرنڈر شدہ اور کچھ غداروں کے رشتہ داروں کو ورغلا کر ڈیتھ اسکواڈ کے ساخت کو تشکیل دے دیا کہ جو اب سرداروں،میروں اور کچھ پارلیمانی پارٹیوں کے کارکنان سے چلی آرہی ہے۔

جب ساخت بن گیا تھا تو ڈیتھ اسکواڈوں نے پاکستانی حربوں کو فروغ دے کر پہاڑوں کے نزدیک بسنے والے مالدار بلوچ بزرگوں کو پکڑوا کر انہیں وہاں سے بے دخل کرنے کی کوششیں کرتے رہے وہ آج روڑں کے نزدیک آئے ہیں، ان کے مال و دولت اور خوشحالی کا سبب یہی بھیڑ بکریاں تھے کہ جب انہیں پیسے کی ضرورت پڑتے تو وہ گجر شہر میں جاکر خرید کر پھر اپنے گھروں میں خوشی خوشی بلوچی رسم و رواج میں بس جیتے لیکن پاکستانی فوج نے انہیں ان کے اپنے سادہ زندگیوں سے محروم کر دیا، انہیں ان کے اپنے گاؤں سے روڑوں کے نزدیک نکل مکانی کرنے پر مجبور کردیا۔

پہاڑوں اور سبز چراگاہوں سے دور آنے کہ وجہ سے ان کے بکریاں مرنے لگے، آج وہ روٹی کیلئے باڈر یا کسی دور شہر میں دس پندرہ ہزار کیلئے کام کر رہے ہیں یا کہ ان میں سے کچھ وہاں چھوٹی موٹی کام کرکے اپنے بچوں کو روٹیاں کھلاتے ہیں۔ وہاں ایسا کوہی گھر نہ بچا باقی کہ جس میں ماتمی جلوس نہیں نکلا ہو، ایسا کوہی بندا نہیں کہ انہیں پاکستانی فوج کی جوتوں اور کرنٹوں کا سزا نہیں ملا ہو، ایسا کوہی ماں نہیں کہ جو اپنی لخت جگر کو خون سے لت پت دیکھا نہیں ہو، ہر کسی کو بی ایل ایف اور بی ایل اے کا فرد کہا کر مارتے اور جسمانی تشدد کرتے رہے یہاں تک کہ بلوچی شلواروں کو کینچی کرتے۔

جاری


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔