بلوچ قوم کو پاکستانی عدلیہ، پارلیمنٹ اور دیگر اداروں سے کوئی امید نہیں۔ ماما قدیر بلوچ

122

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ
مسنگ پرسنز کا جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی کیمپ آج 5195 جاری رہا۔

اس موقع پر نوغے خضدار سے سیاسی و سماجی کارکناں محمد رفیق بلوچ، عباس علی بلوچ اور دیگر نے آکر اظہار یکجہتی کی۔

تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں خفیہ اداروں کی جانب سے خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے اس بارے میں ان گمشدگیوں میں خفیہ ایجنسیوں، ایف سی، سی ٹی ڈی کے ملوث ہونے کے ثبوت مل چکے ہیں لیکن قابض کی فوج ایجنسیوں نے کسی کو خاطر میں لائے بغیر بلوچستان میں ننگی جارحیت جاری رکھی ہوئی ہے جبکہ پاکستان کی مرکزی حکومت بھی مسئلے پر بار بار اپنے بیانات تبدیل کرتی چلی آ رہی ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ حکومت چند افراد کی گمشدگی ظاہر کرتی ہے اور ان افراد کے بارے میں بھی یہ کہتی ہے کہ وہ پاکستانی فورسز کے پاس نہیں ہیں حالانکہ حقیقت میں 53 ہزار سے زاہد افراد پاکستانی عقوبت خانوں میں قید ہر روز موت کا سامنا کررہے ہیں لیکن پاکستانی حکومت انتہائی مجرمانہ انداز میں اس معاملے پر انکاری ہے عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے پاکستان حکومت نے متعدد اجلاس منعقد کئے اور کئی کمیٹیاں تشکیل دیئے لیکن کوئی بھی کمیٹی آج تک اپنی رپورٹ پیش نہیں کر سکی ہے کیونکہ بلوچستان ایک چھاونی کی شکل اختیار کرچکا ہے جہاں تمام فیصلے فوج اور ایجنسیوں کے ہاتھ میں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہاں فوج اور اس کے حواریوں کی ننگی جارحیت کے خلاف کوئی آواز اٹھائے تو اسے نشان عبرت بنایا جاتا ہے دوسری جانب انسانی حقوق کے اداروں کا کردار ماسوائے سالانہ رپورٹ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ آئے روز بلوچستان میں طلبا اساتذہ وکلا ڈاکٹرز سیاسی کارکن اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد پاکستانی ایجنسیوں کے ہاتھوں اغوا قتل ہوتے آرہے ہیں اس لئے لواحقین اور بلوچ قوم کو پاکستانی عدلیہ پارلیمنٹ اور دیگر اداروں سے کوئی امید نہیں۔