(بلوچ قومی لیڈر ڈاکٹر نزر بلوچ کے خلاف نوآبادیاتی پروپگنڈے(حصہ چہارم
تحریر: گورگین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
فولاد سے بنی ہوئی تلوار کے طاقت کے بارے میں ایک لوہار سے پوچھنا ہے کہ وہ اس کے بنانے کیلئے کتنا محنت و مشقت کرتا ہے، ایک بچے کی طاقت کا راز اس کی ماں سے پوچھ کہ وہ اپنی نازک ہاتھوں سے انہیں کس طرح پالتی ہے،ایک ملک کی طاقت کا راز اس لیڈر سے پوچھ جو میدان جنگ میں باصلاحیت لوگوں کو شیر کی طرح بنادیتے ہیں، لیکن قومی آزادی کا راز ڈاکٹر اللّٰہ نزر بلوچ سے پوچھنا ہے کہ آزادی کیلئے کیا کیا کھونا پڑتا ہے۔
یہ اس لیئے لکھ رہا ہوں کہ عظیم بلوچ لیڈر ڈاکٹر اللّٰہ نزر نے بلوچ قومی آزادی کی تحریک میں قربانیاں دیکر سمیت پورے مشکے کے لوگوں کو ایسی درس دی کہ بلند چٹان لوگوں کی امید تھی۔ یہ وہی لوگ تھے کہ جو ڈاکٹر اللّٰہ نزر کے خلاف قابض افواج سے سمجھوتا نہیں کرپاتے، وہ ظلم و زیادتیوں اور جسمانی اذیتوں کا سامنا تو کرتے جب انہیں فوجی کیمپوں میں بلاکر ڈاکٹر اللّٰہ نزر کے خلاف بیان دینے کو کہا رہے ہوتے۔
مختلف اذیتیں کاٹنے کے باوجود اپنی لیڈر کے خلاف بیان دینے کو تیار نہیں ہوئے تھے۔
وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر اللّٰہ نزر بلوچ مشکے کے لوگوں سمیت پورے بلوج سماج کو باور کرانے میں کامیاب ہوئے تھے کہ ان میں طاقت ہے، ان میں انسانیت اور دانائی کی بے مثال کہانیاں ہیں کہ وہ خود کو ڈھونڈ لیں، اپنے وطن کی آزادی کیلئے لڑتے رہیں، سامراجی چالبازیاں کو سمجھ لیں کہ کس طرح اپنی طاقت کو استعمال میں لا رہا ہے اور اپنے تاریخی حقیقت کو سمجھ لیں کہ آپ ایک زمین کے وارث ہیں، ان قدرتی وسائل کی کہ جنہیں آج پنجابی دوسروں کو فروخت کرتے رہے ہیں۔
جب خاموشیوں میں انسانیت کی آواز سنائی دیتی تھی تو قابض افواج نے سرمایہ دارانہ نظام کو فروغ دینے کی کوشش کرتے رہے،کسی کو ٹریکٹر دینے کی وعدہ کرلی تو کسی کو مالی مدد کی۔ کچھ جگہوں میں فنڈز کے بہانے سے جاکر لوگوں کے نامیں لکھواتے، ان کے شناختی کارڈوں کے نمبروں کو لیکر وہ یہی بتا رہے ہوتے کہ وہ مالی امداد کیلئے موثر اقدام اٹھانے والے ہیں، لوگوں کے درمیان خوشیاں لانے والے ہیں، علاقے کے زمیندار و کسانوں کو مدد کرنے والے ہیں لیکن اس تسلسل کا تعلیق ریاستی ساخت سے تھا کہ فوج خود کو منوانے کیلئے مختلف حربے استعمال کررہے تھے۔
چار پانچ مہینے کے بعد بلوچستان لبریشن فرنٹ کے کاروائیاں تیز ہوتے جارہے تھے، مشکے کے پہاڑوں اور کہیں علاقوں میں قابض افواج کو بھاری نقصان پہنچا تو انہوں نے لوگوں کو دوبارا پکڑنا شروع کردیا تھا، عام انسان کو تین تین سالوں تک جھیل میں بند کرنا شروع کردیا۔
نتجہ متضاد نکلا کیونکہ اس تسلسل کا تعلق جبر سے تھا تو جبر لوگوں کیلیے قابلِ قبول نہیں ہے۔
لوگوں نے کسی طرح خود کو قابض افواج کے جھوٹے وعدوں کے سہارے نہیں چھوڑ دیئے تھے۔
افواجِ پاکستان نے ،اس کے برخلاف، پارلیمانی سیاست کو دوبارا پروان چڑھایا۔ کچھ لوگ مہر اللّٰہ، علی حیدر، ثناء، اکرم ساجدی اور شہباز خان جیسے نوآبادیاتی قبائل پرستوں نے اپنے بندے ہر علاقہ میں بیجنا شروع کردیا تھا۔ ان کے لوگ گھر گھر جاکر قابض افواج کے کلاشنکوفیں دکھا کر ووٹ ڈالنے کی باتیں کرتے،ان میں شامل خود تیار کردہ سرنڈر شدہ لوگ بھی شامل تھے کہ وہ بلوچ آذادی پسند دوستوں کے خاندانوں کو مجبور کرتے کہ وہ انہیں ووٹ دیں ، انہیں کامیاب کریں۔
لوگوں کو بزور قوت مجبور کرتے کہ علی حیدر جو قابض افواج کے ساتھ تنک، رونجان، پرپکی، گجلی، کوہ سفید، سنیڈی، اور کہیں جگہ میں جاکر فوج کو انفارمیشنز فراہم کرتا، انہیں الیکشن میں کامیاب دلوائیں۔
سالوں بعد علی حیدر مشکے میں آزاد گھوم رہا تھا، بند گاڑیوں میں ڈیت اسکواڈ والوں کے ساتھ نشے میں دھت تھا اپنے پالے ہوئے چمچوں کو کسی کے خلاف بھی بیان دینے کی بھی کہتا تاکہ مشکے کے لوگ ان سے ڈر کر انہیں واپس سردار سمجھ کر قبول کرلیں۔
علی حیدر نے گورجک شہر میں کہیں غریب بلوچوں کے جگہوں کو قبضہ کرنا شروع کردیا تھا یہاں تک کہ صرف جہاں تک ان کا آمد و رفت تھا وہاں غریب لوگوں کے زمینوں کے ٹکڑوں کو اپنی نام کردیتا اور قابض افواج کے ساتھ مل کر ہر طرح کی پروپگنڈا کرنا شروع کرتا۔
وہ ایک طرف غریب لوگوں کو اٹھواتے تو دوسری طرف وہ اپنے بندوں کو بیج کر لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کو یہی بولنے کو کہتے کہ وہ علی حیدر کے ساتھ مل کر اپنے بیٹوں کو بازیاب کروائیں۔
لوگ جو علی حیدر کو قبول نہیں کرتے تھے ان کے بیٹے مسخ شدہ لاشیں بن گھر پہنچ جاتے، کہیں جوانوں کو فوجی اذیتیں دیکر نیم مردہ حالت میں والدین کو واپس کرتے۔
یہ سب ڈاکٹر اللّٰہ نزر بلوچ کے خلاف بطور نوآبادیاتی حربے تھے لیکن ڈاکٹر وہی تھے جو تھے کبھی۔
ڈاکٹر صاحب کا ایک مشہور کہاوت ہے کہ “لوگ منزل کو مشکل سمجھتے ہیں اور ہم مشکل کو منزل سمجھتے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ پارلیمنٹ پرست بلوچ وطن کا خون چوستے ہیں اور سرمچار وطن کو خون دیتےہیں۔”
یہ کہاوت مجھے اکثر اس افسردگی و غم اور حالت خون ریزی کے بارے میں سوچنے کیلیے مجبور کر دیتا ہے کہ یہ بولان میڈیکل کالج کا طالب علم آج دنیا کی انقلابی گیتوں میں سمایا ہوا ہے، آج ہر پہاڑ کی اونچائی کی مانند بن چکا ہے وہ حقیقتاً اس وقت کیا سوچ رہیں ہونگے کہ جب ان کے اکثریتی عزیز رشتہ دار و بھائیاں گولیوں سے بھون ہوئے تھے، گن شپ ہیلی کاپٹروں اور جیٹ طیاروں کے بم و راکٹوں سے۔
کچھ منطقی سوچ و بچار کے بعد یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اس عظیم و عظمت کے مالک نے یہ پہلے ہی سمجھ لی ہوگی کہ یہ آزادی کی تحریک مشکلات سے بھرا ہوا ہے، بھائیاں، بہنیں، اور بچے سب اسی رستے پر شہید ہونگے۔
جب تک وہ زندہ ہیں انہیں اپنے مشکلات کو منزل سمجھنے چاہیئے، انہیں اس خوبصورت دھرتی ماں کیلئے خود میں قربانی دینے کی صلاحیت پیدا کرنا چاہئے، اپنے سرزمین و قوم کی آزادی کیلئے ہر محاذ پر لڑنا چاہیے، اگرچہ وہ گولیوں سے بھون ہوجاتے ہیں، گھروں سے بے گھر ہوکر دربدر کی ٹھوکریں کھاتے ہیں لیکن انہیں ہار نہیں ماننا چاہیے، انہیں میدان جنگ میں حصّہ لینا چاہیے۔
جاری
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔