بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے بلوچستان بھر میں ڈیتھ اسکواڈ کی فعالیت اور موجودہ نگراں حکومت کی سربراہی میں کھل کر ان کی حمایت کسی المیہ سے کم نہیں ہے۔ موجودہ نگراں حکومت باقاعدہ سیکورٹی اداروں کی ترجمانی کیلئے بنایا گیا ہے اور ان کی طرف سے ڈیتھ اسکواڈز کی حمایت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بلوچستان کو ایک سیکورٹی زون میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور اب ریاست بلوچستان میں ڈیتھ اسکواڈ کے سہارے چلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وڈھ میں ڈیتھ اسکواڈز کی جانب سے جو حالات پیدا کیے گئے ہیں اس میں ریاست کا براہ راست ہاتھ شامل ہے لیکن ڈیتھ اسکواڈز کا یہ دائرہ صرف وڈھ تک محدود نہیں بلکہ بلوچستان کے ہر علاقے میں ڈیتھ اسکواڈز فعال کر دیے گیے ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ ہم نے بارہا اس پر اپنے اعتراضات اٹھائے ہیں لیکن بلوچستان میں سیاسی جماعتیں جب حکومتوں میں ہوتے ہیں تو انہیں بلوچستان میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی اور جب مسئلہ ان کے اپنے گلے میں پڑ جاتا ہے یا حکومت سے محروم ہوتے ہیں تو انہیں اس بات کا خیال آتا ہے کہ بلوچستان میں حالات اس نہج تک پہنچ گئے ہیں۔ ڈیتھ اسکواڈ آج سے نہیں بلکہ گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے فعال ہیں اور مکران سے ڈیرہ بگٹی تک ایک بھی ایسا علاقہ نہیں جہاں ڈیتھ اسکواڈز کے گروپس تشکیل نہیں دیے گئے ہیں۔ منشیات فروشی سے لیکر اغوا برائے تاوان اور قتل و غیرت و گھروں کی چادر و چاردیواری کی پامالی تک ڈیتھ اسکواڈز کے اہلکار تمام انسانی جرائم میں ملوث ہیں اور انہیں براہ راست ریاست کی سرپرستی حاصل ہے حالیہ نگراں حکومت کے نمائندوں نے ڈیتھ اسکواڈز کی حمایت میں تمام حدیں پار کر دی ہیں اور براہ راست انہیں حکومتی سطح پر حمایت کیا جا رہا ہے جس سے بلوچستان میں ریاست اپنی کھوئی ہوئی ساخت مزید کھو رہی ہے۔ ڈیتھ اسکواڈز کے خلاف بلوچستان میں مزاحمت ناگزیر بن چکا ہے کیونکہ ریاست اب اپنی ساخت مکمل طور پر کھو چکی ہے۔
انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں ہزاروں لوگوں کے قاتل کو سرکاری سطح پر حمایت کرکے انہیں نے بلوچوں پر واضح کر دیا ہے کہ ڈیتھ اسکواڈز ریاست کے ہی پیدا کردہ ہیں اور انہیں ہر حال میں ریاستی حمایت جاری رہے گا۔
ترجمان نے بلوچ عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ریاست اور ان اسکواڈز کی کوشش ہے کہ بلوچستان سے بلوچوں کا خاتمہ کیا جائے اور انہیں نقل مکانی کرنے پر مجبور کیا جائے لیکن بلوچ قوم کو یاد رکھنا چاہیے کہ نقل مکانی سے ان کے مشکلوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ ہمیں ریاست کے پالیسیوں کو کامیاب کرنے کے بجائے ریاست کے بی ٹیم یعنی ان ڈیتھ اسکواڈز کا سیاسی مقابلہ کرنا چاہیے اور سیاسی مزاحمت کا راستہ اپنا کر اپنی قومی شناخت اور بقاء کو ان کے ہاتھوں یرغمال نہیں ہونے دینا ہے۔