بلوچستان: جبری گمشدگیوں کے خلاف کوئٹہ میں احتجاج جاری

52

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی قیادت میں بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری طویل بھوک ہڑتالی کیمپ کو آج 5189 دن مکمل ہوگئے۔

اس موقع پر مشکے سے سیاسی سماجی کارکن خدا بخش بلوچ اور دیگر مکتبہ فکر کے لوگوں نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے کیمپ میں شرکت کرتے ہوئے لاپتہ افراد کے اہلخانہ سے اظہار یکجہتی کی-

کیمپ آئے وفد سے اظہار خیال کرتے ہوئے تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا اقوام متحدہ بلوچستان میں صورت حال آگاہی بعد پاکستانی اداروں کے بجائے خود عملی اقدامات کرے، اقوام متحدہ بلوچستان میں پاکستانی جبری قبضہ ختم کرنے اور عالمی قوانین کے خلاف ورزیاں روکنے کے لئے پاکستانی اداروں اور انکے گماشتوں نے اپنی تمام تر حربے آزمائے پاکستانی جارحیت کے شکار لاپتہ بلوچوں اور شہدا کے اعداد شمار کے حوالے سے غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا اب اقوام متحدہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عملی اقدامات اٹھائے اور لاپتہ افراد کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی مکمل صورت حال کو سمجھنے کے لئے بلوچستان کا دورہ کرے اور تمام علاقوں میں جاکر وہاں مقیم بلوچوں سے بات کرے تاکہ انکے سامنے پاکستان کی حقیقت اور بلوچستان کے حوالے سے پاکستان کا جھوٹ پر مبنی موقف دنیا کے سامنے واضع ہو جائے-

انہون نے کہا بلوچ قوم کی پرامن جدجہد اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے ہے اور ریاستی جبر و تشدد کا مقصد بلوچوں کو نشانہ بنانا اور بلوچ قوم کے نوجوانوں اور لکھے پڑھے نوجوانوں دانشوروں بزرگوں کو شہید کرکے بلوچ قوم کی نسل کشی کو آگے لے جاتا ہے جسے کسی بھی طرح چھپایا نہیں جاسکتا۔

ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا اقوام متحدہ مکمل تحقیقات کرنے اور حقائق تک پہنچنے کے لئے برائے راست بلوچستان میں اقدامات اور بلوچستان تحقیقتی ٹیم تشکیل دےکر بلوچستان کا دورہ کرکے مختلف علاقوں میں جاکر تحقیقات کرے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں پاکستانی اداروں کی عالمی قوانین کی خلاف ورزیوں اور جبری گمشدگیوں میں ریاستی ادارے براہ راست ملوث ہیں اور ان کے خلاف کسی قسم کی قانونی کاروائی نہیں ہوتی جس سے یہ واضع ہوتا ہے کہ بلوچستان میں بلوچ قومی نسل کشی اور بلوچ سرزمین پر جبری قبضہ کو برقرار رکھنے کے لئے قابض کے تمام ادارے برائے راست ملوث ہیں۔