انقلابی راہشون گنجل بلوچ
تحریر: سنگت بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
وہ لوگ جو قوموں کے ہیرو ہوتے ہیں، ان کے نزدیک قومی بقاء سب سے اہم ہوتا ہے .اپنے قوم کے لئے ہر طریقے سے جدوجہد اور اپنی زندگی داؤ پر لگانے کیلئے تیار ہوتے ہیں۔ چاہے وہ پرامن سیاسی طریقہ کار ہویا پہاڑوں پر مسلح جنگ کی شکل میں ہو، دشمن سے دوبدو ہونے کی صورت میں ہو وہ تحریک کیلئے کسی بھی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرتے ہیں۔ وہ اپنی قوم کے لئے ہر طریقے سے قربانی دینے سے گریز نہیں کرتے اور ہر اُس لکیر کو پار کر جاتے ہیں جس سے انہیں ان کا مقصد مل جائے۔ ایسے افراد اپنی خواہشات اور سہولیات کو چھوڑ کر اپنے قومی مفاد کے لئے ہر مشکلات کو قبول کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ خوش دلی کے ساتھ وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے جدو جہد کرتے ہوئے کسی قربانی سے گریز نہیں کرتے۔ وہ قومی بقاء کی خاطر دشمن کے جدید ترین اسلحہ بارود کے سامنے معمولی ہتھیاروں کے ساتھ سینہ سپر ہو جاتے ہیں اور دشمن کا راستہ روکنے میں کامیاب ہوتے ہیں اور اگر ضرورت پڑے تو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے گریز نہیں کرتے بلکہ جوان مردی سے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔
ان ہی عظیم شخصیات اور ہیروز میں ایک نام شہید کمانڈر گنجل عرف کامریڈ مزار بلوچ ہے شہید گنجل ایک معصوم لیکن پر خلوص شخصیت کے مالک تھے اور اپنی جوانی سے آخری سانس تک بلوچ وطن اور قومی تحریک سے جڑے رہے اور شہادت تک فلسفہ بلوچ قومی آزادی پر قائم و دائم رہے۔
شہید گنجل نے قومی جدوجہد کی ابتداء بی ایس او سے کی تھی اور جوانی میں وہیں سے قومی آزادی کی تربیت لی۔ جب بی ایس او آزاد کے خلاف نادان دوستوں کو استعمال کیاگیا اور کانسٹی ٹیوشن بلاک کے نام سے پروپیگنڈا شروع ہوا تو مسئلہ دراصل ایک ایسے وقت میں پیش آیا جب بی ایس او ایک مشکل دور سے گزر رہا تھا جبکہ چیئرمین زاھدبلوچ کو جبری لاپتہ کیا گیا تھا لیکن اسی دور میں شہید گنجل مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے ساتھیوں سمیت انقلابی جُُہد کو جاری کرکے اسٹوڈنٹ سیاست میں اپنا کردار ادا کرکے بعدازاں قومی تحریکِ آزادی میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے مسلح جدوجہد کے ساتھ جڑ گئے۔
شروعات کے دنوں سے وہ نہایت عمدہ اور خلوص کے ساتھ کام کرتے تھے جہاں تک میں انہیں جانتا ہوں شہید اپنا ہر کام مطمئن ہوکر کامیابی سے کرتا وہ کبھی بھی کوئی ایسا کام نہیں کرتا انہیں بے مطمئن لگتا ہو ۔یا اسے لگے کہ بے مقصد کام ہے وہ مجھ سے عمر میں بہت چھوٹے تھے لیکن ہمیشہ ہمت سے میری رہنمائی کرتے اور وہ بھی بڑے عزت اور احترام کے ساتھ ہمیں جدوجہد کے پیچیدہ سے پیچیدہ معاملات سمجھاتے تھے۔ وہ ایک انتہائی شفیق انسان تھے۔ وہ بہادری میں اعلی پائے کے انسان تھے۔
گنجل نے جس وقت پہاڑوں کو اپنا مسکن بنایا اس وقت وہ اپنے گھر کے واحد کفیل تھے لیکن اس نے گھر کو تو چھوڑا لیکن قومی جہد کو نہیں چھوڑا وہ اکثر مجھے بھی نصیحت کرتے اور سمجھاتے لیکن میرے اندر وہ خلوص کہاں ، بلوچی کہاوت ہے۔ ” مُرگی دِلاں مزاری جنگ نباں ” اس نے اپنا نام مزار خود رکھا تھا اور مزاری کام کرکے ہمیشہ کے لئے امر ہوگئے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔